مرتے ہوئے لوگوں کے پانچ بڑے پچھتاوے


انسان جب موت کے انتہائی قریب پہنچ جاتا ہے تو سارے سراب ایک دم سے اس کے دماغ سے اڑ جاتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ وہ ساری عمر من گھڑت اور جھوٹی امیدوں کے سہارے جیتا آیا ہے۔ جب موت دہلیز پہ آ دھمکتی ہے تو زندگی کی حقیقت کا صیحح ادراک حاصل ہوتا ہے۔

مرتے ہوئے انسان زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ اگر ان کو دوبارہ جیون بیتانے کو ملے تو وہ کیسے جینا پسند کریں گے؟ ان کے بڑے پچھتاوے کون کون سے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب آسٹریلین مصنفہ اور موٹیویشنل سپیکر برونی وئیر نے اپنے بلاگ Regrets of the dying میں بیان کیے ہیں۔

برونی وئیر اولڈ ہوم میں ان عمر رسیدہ لوگوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں جو چند دن کے مہمان تھے۔ موت کا انتظار کرتے ان بزرگوں کے ساتھ برونی وئیر نے تین سے بارہ ہفتے گزارے اور چشم کشا یادیں قلم بند کیں۔ دو ہزار نو میں شائع ہونے والے اس بلاگ کو کتابی شکل میں دو ہزار بارہ میں The Top Five Regrets of the Dying کے نام سے شائع کیا گیا۔ یہ کتاب کافی مشہور ہوئی اور اب تک ستائیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے والوں کی زندگیوں میں مثبت اور خوش کن تبدیلی لانے کا سبب بن سکتی ہے۔

بستر مرگ پہ پڑے لوگوں کے پانچ بڑے پچھتاووں میں سب سے پہلا پچھتاوا یہ تھا کہ ”کاش میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیتا۔ وہ زندگی نہ جیتا جیسی دوسرے لوگ چاہتے تھے۔ “ یہ سب سے عام پچھتاوا تھا۔ دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنے والے جب مڑ کر گزرے ماہ و سال کو دیکھتے ہیں تو ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں کہ کتنے ہی خواب تھے جو ادھورے رہ گئے۔ کتنے ارمان مٹی ہو گئے۔ کتنی ہی خواہشیں درگور ہو گئیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے آدھے خواب بھی پورے نہ کر سکے اور ہمیشہ کے لیے رخصت ہو رہے تھے۔ اب وقت ہاتھوں سے نکل گیا۔ اب سورج ڈھل گیا۔ راہ عدم کے وہ مسافر جب شام ڈھلے مڑ کر ایک نظر دیکھتے ہیں تو اجلی صبح اور پر نور دوپہر میں کتنے ہی خواب دوسروں کی خاطر کیے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئے۔ اپنی زندگی کو من چاہا جی نہ سکے۔

زندگی کی اونچی نیچی راہوں کی خاک چھاننے والوں کی ٹھنڈی آہیں ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ خوابوں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ من چاہے جیون کے کچھ پل جی لیے جائیں۔ جب جوانی اور صحت وداع ہوتی ہیں تب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ٹرین چھوٹ چکی ہوتی ہے۔ تندرستی ایک آزادی ہے۔ اس کا احساس تب تک ہمیں نہیں ہوتا جب تک یہ ہم سے چھن نہیں جاتی۔

شاعر جاوید اختر نے اسی خیال کو کچھ یوں اظہار کا رنگ پہنایا ہے۔
ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی
چھاؤں ہے کبھی، کبھی ہے دھوپ زندگی
ہر پل یہاں جی بھر جیو
جو ہے سماں کل ہو نہ ہو

دوسرا بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ ”کاش میں زیادہ کام نہ کرتا“۔ یہ جواب ہر مرد مریض کی طرف سے دیا گیا۔ ان کو یہ پچھتاوا تھا کہ انہوں نے کار جہاں میں اپنے بچوں کی صحبت کھو دی۔ بیوی کی ہمراہی بھی کام کی وجہ سے متاثر ہوئی۔ اپنوں کے ساتھ وقت گزارنے کا لطف نہ لے سکے۔ کولہو کے بیل کی مانند کام میں ہی جتے رہے اور سب کچھ ہاتھوں سے نکل گیا۔ ساری زندگی کام کی نذر ہو گئی۔ جن کاموں کو وقت دینا چاہیے تھا یا جن ساعتوں کو جی بھر کے جینا چاہیے تھا وہ ساعتیں ہوا ہو گئیں۔

سادہ طرز زندگی اختیار کر کے اور شعوری فیصلوں کے ذریعے یہ ممکن ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہمیں ضرورت سے زائد پیسے کمانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بے جا خواہشات ہمیں مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ غیر ضروری خواہشات سے چھٹکارا پایا جائے۔ یوں وقت بچے گا۔ خوشیاں ملیں گی۔ نئی راہیں کھلیں گی۔ نئے مواقع اور تجربات ملیں گے جو نئے طرز زندگی کے لیے موزوں ہوں گے۔

تیسرا پچھتاوا یہ تھا کہ ”کاش میں اپنے جذبات کے اظہار کا حوصلہ کر پاتا“۔ دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات کی خاطر اپنے جذبات کو دبانا پڑا۔ نتیجے کے طور پر ایک درمیانی زندگی جینا پڑی۔ وہ نہیں بن پائے جس کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جذبات اور احساسات دبانے سے تلخی اور بیماری سے دامن بھر بیٹھے۔

برونی وئیر کہتی ہیں کہ جان لیجیے ہم دوسروں کے رد عمل کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ آپ جو ہیں اس کا اظہار کیجیئے۔ ایسا کرنے سے تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ بیمار اور بناوٹی تعلقات کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اظہار سے آپ کا من ہلکا ہوتا ہے۔ خوشی ملتی ہے۔

چوتھا بڑا پچھتاوا یہ تھا کہ ”کاش میں اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھ پاتا۔ “ برونی لکھتی ہیں کہ موت جب قریب ہوتی ہے تو لوگ اپنے پرانے دوستوں کو یاد کرتے ہیں۔ تب انہیں ان کی اہمیت کا ادراک ہوتا ہے۔ لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ان دوستوں کا دوبارہ ملنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم لوگ اپنی زندگی کے جھمیلوں میں یوں الجھ جاتے ہیں کہ مخلص اور سچے ہیرے جیسے دوستوں کے ساتھ چھوٹ جاتے ہیں۔ مرنے والوں کے دل میں یہ کسک رہ جاتی ہے کہ وہ اچھے دوستوں اور خوبصورت رشتوں کی اتنی قدر نہیں کر سکے جس کے وہ مستحق تھے۔ مرتے وقت سب لوگ اپنے دوستوں کو مس کرتے ہیں۔

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

لہذا زیادہ دوست بنائیے۔ مخلص لوگوں کی قدر کیجیئے۔ ان کے ساتھ وقت گزاریے۔ آپ خوش رہیں گے۔

”کاش میں نے اپنے آپ کو خوش رہنے دیا ہوتا“۔ یہ پانچواں بڑا پچھتاوا تھا۔ زیادہ تر لوگ زندگی کے ختم ہونے تک یہ نہیں جان پاتے کہ خوش رہنا بھی ان کے اپنے بس میں تھا۔ خوش رہنا ایک چوائس ہے۔ پرانی عادات کے بھنور میں پھنسے رہے اور خود کو اس دھوکے میں رکھا کہ وہ مطمئن جی رہے ہیں۔ خود کو مہذب ہونے کے خول میں بند رکھا۔ جب کہ انسان ہنسنا چاہتا ہے۔ شرارت یا کسی بے ضرر پاگل پن سے خوشی کشید کرنا چاہتا ہے۔ موت کے قریب انسان اس خوف سے بے نیاز ہو جاتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ کتنا بہتر ہو کہ موت سے بہت پہلے یہ خوف مر جائے اور انسان کھل کر ہنس سکے۔

برونی وئیر ہمیں یہ مشورہ دیتی ہیں کہ زندگی ایک چوائس ہے۔ یہ آپ کی اپنی زندگی ہے۔ ایمانداری اور عقل مندی سے اس کا لطف اٹھائیں۔ خوشیوں کا انتخاب کریں۔ خوش رہنا سیکھیں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti