”نچ کے یار مناون دے“


منانے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریق یہ ہے کہ ”نچ کے یار مناون دے“ اس کو تصوف میں ایک خاص رنگ میں لیا گیا۔ فی الحال مدنظر یہ نقطہ نظر نہیں۔ لیکن دنیا میں کسی کو منانا باقاعدہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو اس فن میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں ان کو معاشرہ ایک خاص طرح کا مقام دیتا ہے۔ سیاسی میدان تو اس فن کے بغیر ہمیشہ ہی ادھورا رہا ہے بلکہ جس کو یہ فن نہیں آتا اس کو سیاست ہی نہیں آتی۔ خواہ ناچیں یا نچوائیں، روپیہ دیں یا دلوائیں منوانا ضروری ہے ورنہ کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا چاہے ناچ ناچ کے پاگل ہی ہوجائیں۔

ناچنے کے علاوہ کسی کو بٹھا کر بھی منوا سکتے ہیں شرط یہ ہے بیٹھنے کے لیے کرسی کسی وزارت کی ہو۔ بے شک پہلے گالیاں تک دی ہوں تعریفوں کے ایسے پل باندھے جائیں کہ پل بھی ناچنا شروع کردیں گے۔ یہ پل اس وقت ٹوٹیں گے جب وزارت کی کرسی بیٹھنے کے لیے نہیں رہے گی۔

جدید دور میں منانے کے لیے یوٹرن کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کثرت سے یوٹرن لیا جائے تو تقریباً ناچنے والی کیفیت کا گماں ہوسکتا ہے۔ یوٹرن کے بے شمار فوائد ہیں کیونکہ ناچنے سے جس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے یوٹرن میں یہ خطرہ مفقود ہوتا ہے البتہ فوائد ناچنے سے کہیں زیادہ حاصل ہوجاتے ہیں۔ اب تو موجودہ وزیراعظم نے یوٹرن کے حق میں بیان دے کر اس کی قدر ومنزلت میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ اگر یوٹرن کی مارکیٹ میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو ”نچ کے یار مناون دے“ کی بجائے ”یوٹرن لے کے یار مناون دے“ گانا میوزک کے ساتھ کافی مقبول ہو سکتا ہے۔

کسی کو منانا ہو تو دھمکی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجاؤ شاید اگلا نرم پڑ جائے اگر نرمی نہ دیکھو تو بھاگنے کی مشق ہونا ضروری ہے ورنہ دھمکی والا مشورہ مفت ہی ہے۔ باقی ذمہ داری اپنی ہے۔

این آر او سے بھی منانے کا رواج ہے لیکن اس کے لیے اپنی کوئی ہڈی پسلی ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی این آر او نہیں دے گا۔ پھر نہ کوئی بینک بلینس کام آتا ہے اور نہ کوئی بیماری۔

آج کل منانے کے مقاصد میں بھی کافی تنوع ہے۔ ہر کوئی اپنے مقصد کے لیے دوسرے کو مناتا ہے۔ ملک دوسرے ملک کو، ایک پارٹی دوسری پارٹی کو ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کو مناتا ہے لیکن ہر ایک کا مقصد اپنا اپنا ہوتا ہے۔ بعض دیوانے تو صرف گرل فرینڈ کو مناتے مناتے منوں مٹی نیچے چلے جاتے ہیں۔ ویسے گرل فرینڈ کی کافی ورائٹی آگئی ہے۔ بھلا ہو موبائل کا۔ اس نے پیغام رسانی کے لیے کبوتر وغیرہ سے جان چھڑا دی ہے۔ اب تو رابطہ کرنا ہے تو بس بیلنس چاہیے۔ ایک نمبر نہ ملا تو دوسرا سہی۔ کسی ایک پر تو بات ہو ہی جائے گی۔ بیچارہ رانجھا بھی سوچتا ہو گا کہ کاش اس زمانے میں ہوتا تو ہیر کی گلیوں میں خجل خوار تو نہ ہوتا۔ وقت کی بچت بھی ہوجانی تھی اور گھڑے کا سہارا بھی نہیں لینا تھا۔ ہیر بھی بچ جاتی اور رانجھا بھی۔

ویسے اب ناچنا منانے کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ زمانے کا تقاضا بن گیا ہے۔ شادی میں جب تک گھر کی عورتیں ناچ کر نہ دکھائیں تو شادی ”بابرکت“ ہی نہیں ہوتی۔ ناچ ڈانس بن کر دعوتوں کا لازمی جز بن گیا ہے بلکہ اسٹیٹس کی علامت ہے

یار منانا ہے تو کئی اور طریقے ہیں صرف ناچ ضروری نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).