ائیر کنڈیشنر کی سروس میں دھوکے سے کیسے بچیں؟


جب سے سپلٹ اے سی آئے ہیں، بل میں تو شاید بچت ہو جاتی ہو لیکن اگر آپ کو شفٹ کرنا پڑے یا ایک مرتبہ ٹیکنیشن کے ہاتھ لگ جائیں تو پھر گیس بھروا بھروا کر بھی پوری ٹھنڈک نصیب نہیں ہوتی۔ پوری مارکیٹ عطائی ٹیکنیشنز سے بھری ہوئی ہے جو تین سال کے HVAC کورس کی جگہ یہ تین دن استاد کے ساتھ لگا کر دو نٹ جوڑنا سیکھ کر مارکیٹ میں کمانے نکل پڑے ہیں اور لوگوں کے اے سی کا بیڑہ غرق شروع کر دیتے ہیں۔ آئیے آپ کو کچھ بنیادی باتوں سے آگاہ کرتے ہیں تاکہ آپ قابل اور نالائق کی پہچان کر سکیں اور ان کے جگاڑ والی مرمت سے اپنے پیسے اور اے سی کو محفوظ رکھ سکیں۔

پہلا اصول : اے سی میں گیس کبھی استعمال سے کم یا ختم نہیں ہوتی، لہذا بلا وجہ گیس کی کمی لیکج کی نشانی ہے۔ گیس بھروانے سے پہلے لیکج چیک کروائیں۔ لیکج چیک کرنے کے لیے ویکیوم پمپ سے ساری ہوا نکال کر منفی پریشر بنایا جاتا ہے اور دس پندرہ منٹ تک گیج دیکھا جاتا ہے اگر ویکیوم ختم ہونے لگے تو لیکج ہے جس کے لئے پورا اے سی ورکشاپ لے جانا پڑتا ہے اور اسے مائع نائٹروجن سے بھرا جاتا ہے جس کے بلبلے لیکج کی جگہ کا پتا دے دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیس لیکج چیک کرنے کے باقاعدہ ڈکٹیٹر detector ملتے ہیں۔ یہ سکھلائی کا طریقہ ہے۔ باقی صابن کی جھاگ پھینکنے کے طریقے سب جگاڑ ہیں۔

دوسرا اصول : انورٹر اے سی میں نئی گیس آ رہی ہے R 410 a جو بھرنے سے پہلے اے سی کو خالی کرنا مانگتی ہے۔ پوری کرنے کی کوشش میں کمپریسر خراب ہو سکتا ہے۔ بہتر تو یہی ہے کے ہمیشہ اے سی خالی کر کے گیس بھری جائے چاہے پرانی R 22 ہو یا نئی R 410 a۔ لیکن بہت پرانے اے سی میں اتنا خرچہ کرنے کا شاید فائدہ نہ ہو۔ بہت اناڑی ٹیکنیشن غلط گیس بھی بھر سکتے ہیں۔ R 22 کی جگہ 410 تو کنڈینسر condenser پھاڑ دے گی لیکن 410 کی جگہ 22 کی کولنگ بہت کم ہو جائے گی اور کچھ ہی دنوں میں کمپریسر بیٹھ جائے گا۔

تیسرا اصول : ایک ٹن کے اے سی میں ایک کلو کے لگ بھگ گیس آتی ہے جبکہ ڈیڑھ ٹن میں ایک کلو اور تین سو گرام کے آس پاس آتی ہے۔ اے سی کے انڈور یونٹ میں پلیٹ پر مقدار درج ہوتی ہے، اس سے اوپر صرف جھوٹ ہے کہ ریٹرن گیس چاہیے ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے اوپر گیس بھرنے کے دعوے کو تسلیم ہی نہ کریں۔ مقررہ مقدار سے زیادہ گیس بھری جا سکتی ہے لیکن وہ کولنگ کم اور بل زیادہ کر دیتی ہے اور کمپریسر پر بوجھ ڈالتی ہے۔ مقررہ مقدار ہی کی گیس ڈلوائیں۔

چوتھا اصول : اے سی میں گیس خاص پریشر تک بھری جاتی ہے جس کو کمپنی کے مینول میں دیے ہوئے چارٹ سے پڑھنا پڑتا ہے۔ باہر کے اوسط ٹمپریچر کے حساب سے گیس کا پریشر رکھا جاتا ہے ورنہ اے سی اچھی طرح کام نہیں کرتا اور بل بڑھ جاتا ہے۔ لہٰذا پریشر گیج تو کم از کم بہت ضروری ہے، جو ٹیکنیشن صرف گیس سلنڈر لے کر آ جائے اور یہ کہے کہ میں suction پائپ پہ ہاتھ رکھ کر صرف ٹھنڈک سے اندازہ لگا سکتا ہوں کہ گیس پوری ہو گئی ہے یا بجلی کا ایمپیر میٹر لگا کر بجلی کھینچنے سے چیک کر لیتا ہوں، اسے تو گھر میں گھسنے ہی نہ دیں۔

پانچواں اصول : اے سی میں ہلکی سی ہوا اور نمی کے داخلے سے کمپریسر اور پائپوں میں زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور اندر سے برف جمنی شروع ہو جاتی ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کا بل بیس فیصد تک بڑھ جاتا ہے بلکہ کولنگ واضح طور پر کم ہو جاتی ہے اور کمپریسر تین چار سالوں میں جواب دے جاتا ہے۔ اس لئے اے سی میں گیس بھرنے سے پہلے ویکیوم پمپ سے ویکیوم بنایا جاتا ہے۔ اگر ٹیکنیشن ویکیوم پمپ نہ لائے تو اے سی چل تو پڑے گا لیکن ہر مہینے دو سے تین ہزار کی زیادہ بجلی کھائے گا اور تین سے چار سالوں میں جواب دے جائے گا۔ فیصلہ خود کر لیں۔

چھٹا اصول : اے سی کے کاپر پائپ بہت نرم ہوتے ہیں اور پائپ بینڈر Pipe Bender سے موڑے جاتے ہیں ورنہ ان میں باریک سوراخ ہو جاتے ہیں اور ایک ہی سیزن میں گیس نکل جاتی ہے۔ بغیر پائپ بینڈر کے آنے والے ٹیکنیشن سے انسٹالیشن نہ کروانا بہتر ہے۔

ساتواں اصول : ٹیکنیشن کو کہیں کہ سلنڈر کا وزن ناپنے والا ڈیجیٹل سکیل لے کر آئیں اور بھرنے سے پہلے اور بعد میں وزن کے فرق سے بھری ہوئی گیس کے وزن کا اندازہ ہو جائے گا۔ باقی سب کہانیاں ہیں کہ ہم ٹیکنیکل لوگ ہیں، ہمارا تجربہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

آٹھواں اصول : اے سی ریپیر کا ایک بنیادی اوزار ہے جو چار مختلف رنگ کے پائپ اور دو گیج پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے Guage Manifold گیج مینیفولڈ کہتے ہیں، اس کے بغیر اے سی کی کوئی مرمت نہیں ہو سکتی۔ دو پائپ اے سی کے ساتھ، ایک سلنڈر کے ساتھ اور ایک ویکیوم پمپ کے ساتھ لگتا ہے۔ اس سے کم صرف جگاڑ ہے اور اے سی میں نمی یا ہوا لیکج کا رسک لینا ہے۔ اس کی تصویر آپ گوگل کر سکتے ہیں۔ اس میں ایک ڈائل بھی ہوتا ہے جس میں کنکٹ کرنے کے بعد بلبلے بننے لگیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اے سی میں ہوا اور نمی داخل ہو چکی ہے۔ اس کی مختلف knobs کو بند اور کھولنے کی ترتیب صحیح گیس بھرنے کو یقینی بناتی ہے۔

نواں اصول : مارکیٹ میں مختلف برانڈ کی گیس دستیاب ہیں۔ اصل میں R 410 a امریکن Honeywell کمپنی کی بنائی ہوئی ہے اور انہی کی پیٹنٹ patent ہے۔ یہ آج کل مارکیٹ میں سولہ سے آٹھارہ سو روپے کلو دستیاب ہے۔ کاغان اور موکا کمپنیوں کی گیس بارہ سو اور چینی گیس اس سے بھی کم پر دستیاب ہے۔ ہمیشہ Honeywell پر اصرار کریں اور دکان کی رسید دیکھیں۔ دوسری گیس کی کولنگ کم ہوتی ہے تو بچت بجلی کے زیادہ بل سے ختم ہو جاتی ہے اور کمپریسر کو بھی نقصان پہنچتا ہے

دسواں اصول : سلنڈر ہمیشہ سیدھا رکھ کر گیس بھروائیں اور اگر گیس بیس فیصد سے کم رہ جائے تو ٹیکنیشن کو کہیں کہ پہلے سلنڈر Refill کروا کر آئے ورنہ گیس درست تناسب سے نہیں بھرتی اور کولنگ اور زیادہ بل کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ٹیڑھا کر کے ریزرو گیس مت ڈلوائیں۔

یہ تو بنیادی دس اصول ہیں، اس کے علاوہ ہمیشہ ٹیکنیشن کے ساتھ رہیں اور خود بھی گیج کو پڑھیں۔ وہ اکثر کسی بہانے سے آپ کو اندر کولنگ وغیرہ چیک کرنے کے لئے بھیجنے کی کوشش کرے گا لیکن آپ اسی کو بھجوائیں۔ پیمنٹ لینے کے بعد یہ تو آپ کا فون بھی اٹینڈ نہیں کریں گے۔ اگر آپ تنقید کریں گے تو یہ تھیوری کا مذاق اڑائیں گے اور اپنے آپ کو پریکٹیکل کے لوگ قرار دیں گے۔ یہ درست ہے کہ پریکٹیکل کے بغیر تھیوری بیکار ہے لیکن تھیوری کے بغیر پریکٹیکل خطرناک ہے۔ انورٹر اے سی روز روز نہیں خریدے جائیں سکتے اور تھوڑی سی توجہ اور احتیاط آپ کو بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).