ہمارا نظام تعلیم، پیاسا کوّا اور ارسطو


جمعرات کو سپریم کورٹ نے ملک میں نجی جامعات کی بھرمار اور ڈگریوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ملک میں شعبہ تعلیم تباہ ہو رہا ہے، ڈگریاں بیچی جا رہی ہیں، ایک نسل تباہ ہو چکی، دوسری لائن میں لگی ہے، لیکن حکومت ان معاملات کو کیوں نہیں دیکھتی۔ معزز جج نے اور بھی متعدد مسائل کا ذکر کیا اور حکومت پر شدید ناراضگی ظاہر کی۔ ملک کے اعلی ادارے کی جانب سے تعلیم جیسے مسئلے پر توجہ دینا اہم بات ہے اور اس سلسلے میں تمام متعلقہ اداروں کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نظام تعلیم کسی بھی قوم کی کامیابی یا ناکامی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور بدقسمتی سے ہمارا یہ نظام انتہائی ناقص ہے۔ اس وقت طلبا اور پوری قوم کے لئے سب سے سنجیدہ اور خطرناک ایشو ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے سلیبس ہیں، کیونکہ ہمارے ہاں صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال پرانے کورسز پڑھائے جارہے ہیں۔ پرائمری سکولوں میں ہمارے بچّے آج بھی ”پیاسا کوّا“ اور بندروں کے تاجر سے ٹوپیاں چرانے کے قصّے پڑھ رہے ہیں، ہائی سکولوں میں میٹرک کے طالب علموں کو فرضی محبت کی ناکام، اداس اور مایوسی کی داستانوں پر مبنی غزلیں پڑھائی جاتی ہیں، کالجوں میں اردو جیسے اہم مضمون کو پاس کرنے کے لئے تو اس ساری شاعری کی من و عن تشریح سمجھنا بھی لازمی ہے۔

اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں کہ اس طرح سے ان بچوں کی کس قسم کی ذہن سازی ہوتی ہے؟ یونیورسٹی لیول کے کورسز کی حالت اس سے بھی بد تر ہے۔ بذات خود پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اگر ہمارے طالب علم یہ اہم مضمون پڑھنا چاہیں تو ان کی تھرڈ ائیر (گریجویشن) کی پہلی کلاس سقراط، افلاطون اور ارسطو سے شروع ہوگی۔ یہ طلبہ جب اس کے بعد پوسٹ گریجویشن میں جاتے ہیں تو ماسٹرز کی پہلی کلاس بھی انھی سقراط، افلاطون اور ارسطو کی تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانی تعلیمات پر مشتمل ہوتی ہے۔

یہ سلسلہ یہاں بھی نہیں رکتا، یہی سٹوڈنٹس جب ایم فل جیسی بڑی ڈگری مکمل کرتے ہیں تو بھی اس کا اختتام انہی فلسفیوں کی تھیوریاں اور ارشادات پڑھنے پر ہوتا ہے۔ اس سارے عرصے میں موجودہ سیاست اور معروضی حالات پر بہت کم توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جو کہ نہ ہونے کی برابر ہے۔ یہی حال دیگر مضامین میں پڑھائے جانے والے کورسز کا بھی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں کریکٹر بلڈنگ، نئی اورتخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے اور موجودہ زمانے کے چیلنجوں سے نمٹنے کی تربیّت نہیں دی جاتی۔

یونیورسٹیوں سے نکل کرہمارے نوجوان مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ انھیں ملازمتوں کی مارکیٹ میں اپنے لئے اپنی تعلیم سے تعلق رکھنے والی ملازمت کا حصول انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ ان کی تعلیمی قابلیّت ایک مضمون میں ہوتی ہے اور وہ حکومت کی جانب سے اناونس ہونے والی تقریباً ہر ملازمت کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زیادہ ترسرکاری اداروں میں ایسے لوگ کام کر رہے ہیں جن کی نہ تو تعلیمی تربیت اس کام میں ہوئی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس کام کے اصول وضوابط سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ ان اداروں میں نان پروفیشنلزم عام ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے زیادہ تر سرکاری ادارے زوال پذیر ہیں۔ اب نوبت اس حد تک آ پہنچی ہے کہ حکومت بھی کئی سرکاری اداروں کی نجکاری کرکے ان سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔

اس کے علاوہ یونیورسٹیوں کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز میں جب تحقیقی مقالے لکھنے کا وقت آتا ہے تو ہمارے اسکالرز ایک اور بڑے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر کیسوں میں ان کے تعلیمی کیرئیر کا سارا دارومدار اپنے ریسرچ سپروائزر کے رویوں پر منحصرہوتا ہے۔ اکثر اوقات سپر وائزرز کی لاپرواہی کے باعث ان کے مقالے اور تھیسز مقررہ وقت میں مکمل نہیں ہوپاتے۔ مزید برآں، ان کے پاس ریسرچ کے لئے دستیاب وسائل بھی کم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ریسرچز کا زیادہ تر انحصار گوگل جیسی سائیٹس پر ہوتا ہے اور ان کے مقالے اور تھیسز معیاری نہیں ہوتے۔

ٹیچنگ سٹاف کے بارے میں بات کی جائے تو کئی یونیورسٹیوں کے پاس اساتذہ کی کمی ہے اور وہاں بی ایس اور ایم اے کی کلاسز میں ایسے افراد بھی بلامعاوضہ ٹیچنگ کرتے ہیں جو یونیورسٹی کے استاد نہیں بلکہ ایم۔ فل یا پی ایچ ڈی پروگرامز کے candidates ہوتے ہیں اور ان کی ٹیچنگ صلاحیت کی کوئی سند نہیں ہوتی۔ یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ہوشربا اضافے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انٹر سے اوپر لیول کی تعلیم روز بروز مہنگی ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر طلباء کے لئے اعلی تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ کئی یونیورسٹیوں کے پاس طلباء کے لئے ہاسٹلز کی کافی سہولت بھی نہیں ہوتی۔ ان یونیورسٹیوں کے زیادہ سٹوڈنٹس پرائیویٹ ہاسٹلوں مقیم رہتے ہیں جن پر یونیورسٹی انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ ایسے ہاسٹلز میں نشہ آور اشیا کا استعمال عام ہوتا ہے اور کئی طلبا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جنھیں کوئی بھی نوٹس نہیں کرتا۔ ان سمیت کئی مسائل کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں کا معیار روز بروز گر رہا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت دنیا کی پہلی 100 یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔

ان حالات میں جب ہم ملک کے موجودہ منظر نامے پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہر طرف ایک مایوسی کی فضا چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہمیں اس سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی پاکستانی موجد نظر نہیں آرہا، ایسا کوئی نظریہ ساز اور مفکر سامنے نہیں آ رہا جس کی تعلیمات میں اس دور کے مسائل کا حل موجود ہوں۔ ہمارے پاس کوئی ایسا قابل ذکر سائنسدان نہیں ہے جو مکمل طور پر اس تعلیمی نظام کی پیداوار ہو۔ یہاں کوئی لیڈر پیدا نہیں ہو رہا جو اس ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنی قوم کی رہنمائی کرے۔ آخراس صدیوں پرانے بنجر نظام تعلیم سے موجودہ بوسیدہ نظام کو چیلنج کرنے اور اس میں اصلاحات لانے والے رہنما پیدا کرنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ جس قوم کے بچے سینکڑوں سال پرانا نصاب پڑھ پڑھ کر جوان ہو رہے ہوں,  وہ قوم کچھ نیا کیسے سوچ سکتی ہے؟ وہ کچھ نیا کیسے کر سکتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).