میرے آٹھ مارچ کے بینر پر کیا لکھا ہو گا؟


مارچ کی آٹھ تاریخ ایسی آئی اور بیشتر مرد و زن کے حواسوں پہ ایسی چھائی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ پورا مارچ ہم آٹھ مارچ ہی سمجھ کے گزاریں گے۔ ویسے ہوا تو کچھ ایسا نہیں کہ لوگوں کی راتوں کی نیندیں اور دن کے چین کھو جائیں۔ لیکن دل کا کیا کریں کہ دل تو بچہ ہے جی۔ عورت مارچ نے معاشرے کے فرسودہ اور عورتوں بارے دقیانوسی اور گھٹی ہوئی سوچ پہ ایسی کاری ضرب لگائی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ان کے کان اب تک شائیں شائیں کر رہے ہیں۔ اور ان کو اپنی آنکھوں پہ یقین بھی نہیں آ رہا کہ وہ ایسا بھی کچھ پڑھ سکتی ہیں۔ کیسا، بھئی یہی کہ اپنی ڈک پک اپنے پاس رکھو۔ ڈک۔ ٹیٹر شپ نہیں چلے گی۔

مجھے تو یہ بینر پڑھ کے اپنے آپ کو کوسنے دینے کا دل کیا کہ ایسا کریں ایکٹو جملہ میرے دماغ میں کیوں نہ آیا۔ مجھے یاد ہے کہ 2005 میں میری ایک قریبی عزیزہ نے بہت ذوق و شوق سے کمپیوٹر لیا۔ اسے سیکھنے کے لئے باقاعدہ ٹیچر رکھی گئی۔ نیٹ کنکشن اس وقت بہت پیچیدہ ہوتا تھا۔ ڈائل اپ وغیرہ کے بعد رو رو کے سپیڈ پکڑتا تھا۔ خیر ایسے ہی سیکھتے سکھاتے انہوں نے یاہو کی آئی ڈی بنائی۔ اور یاہو چیٹ روم میں جانا شروع کیا۔

وہاں ان کی کسی مرد سے مختلف موضوعات پہ بات چیت شروع ہوئی۔ دو چار بار کی بات کے بعد ان صاحب نے کہا کہ ویب کیم پہ بات کرتے ہیں۔ ان کے پاس ویب کیم نہیں تھا۔ ان صاحب نے کہا کہ کوئی بات نہیں میں آپ کو اپنا آپ دکھانا چاہتا ہوں۔ خیر انہوں نے کیم آن کرنے کا طریقہ سیکھا۔ اب رات کو انہوں نے جب چیٹ شروع کی تو ان صاحب نے ویڈیو کال ریسیو کرنے کا کہا۔ میری عزیزہ کہتی ہیں کہ میں نے جونہی کیم آن کیا تو آگے سے ایک بندہ بالکل ننگا سامنے لیٹا ہوا تھا۔

وہ تو گھبرا گئیں کہ شاید کال کہیں اور مل گئی ہے۔ انہوں نے اسے کہا کہ یہ تو ویڈیو میں کوئی بے ہودہ آدمی لیٹا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ لو یہ تو میں ہی ہوں۔ کیا تمہیں *****پسند نہیں آیا۔ میری عزیزہ اتنا گھبرائیں کہ انہوں نے مانیٹر آف کر دیا۔ جب دو منٹ بعد چلایا تو وہ سین پھر سامنے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اتنی حواس باختہ ہوئی کہ جب کسی طرح سے سکرین سے وہ ننگا آدمی غائب نہ ہوا تو میں نے کمپیوٹر کے پلگ اتار کے پھینک دیے۔ دوپہر کو مجھے انہوں نے یہ بات بتائی۔ میں نے بھی پریشانی کا اظہار کیا۔ اب ہم اس بات پہ پریشان کہ کمپیوٹر آن کرنے پہ کہیں وہ سامنے ہی نہ ہو۔ (قسم سے ہم اتنے ہی معصوم تھے ) ۔ خیر رات ہونے پہ کمپیوٹر آن کیا گیا تو شکر ہے کہ سکرین پہ وہ منحوس نہ تھا۔

ایسے ہی جب میں نے کمپیوٹر لیا۔ اور نیٹ یوز کرنا شروع کیا۔ تو مجھے کیم کی حد تک یہ اندازہ رہا کہ کیم آن نہیں کرنا ورنہ کوئی ننگا ہی سامنے آئے گا۔ لیکن یاہو چیٹ روم سے زیادہ تر لوگ سیکس چیٹ کے لئے ہی ترستے ہوئے ملے۔ ترسے ہوئے لوگوں میں پاکستانی سرفہرست نظر آئے۔ انڈینز سے میری بہت جمتی تھی کیونکہ وہ مہذب اور سلجھی ہوئی گفتگو کرتے تھے۔

اب تو خیر ہم اتنے معصوم نہیں رہے تو اب بھی ہمارے ریکویسٹڈ میسجز میں ایک بزرگوار کی طرف سے ڈک پکس کی بھرمار تھی۔ مجھے اوریا مقبول جان کا ڈک پک پہ غصہ دکھانے سے وہ بزرگ یاد آئے۔ جنہوں نے مجھے اپنی اور گوگل شدہ ڈک پک بھیجنے کے ساتھ ساتھ اسے میری دوسری فیس بکی فرینڈز تک پہنچانے کا حکم بھی دیا ہوا تھا۔ مطلب وہ بالکل اوریا مقبول کے سگے کمبھ کے میلے میں بچھڑے بھائی ہی لگے مجھے کہ جو کہہ رہے تھے کہ اپنا ڈک مجھے دکھانا ان کا بنیادی حق ہے۔ یہ جانے بغیر کہ مجھے اسے دیکھ کے قے محسوس ہوئی۔ اچھا کا تو الف بھی نہ لگا۔

”لو بیٹھ گئی ٹھیک سے“ پہ غصہ دکھانا بھی مجھے تو عجیب لگا۔ کیا ہماری مائیں ہمارے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے چلنے سونے پہ ہمہ وقت سوٹے لے کر نہیں بیٹھی ہوتیں۔ کئی بار ماؤں سے زیادہ اوپر کے رشتے دار جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اپنے لڑکی ہونے پہ غصہ آنے لگ جاتا تھا مجھے جب مجھے بے جا روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

بسوں میں، سڑک پہ، سکول جاتے، مارکیٹ، کسی فنکشن، کام پہ آتے جاتے مجھے معلوم ہے کہ کون کون اپنی رانیں کھجاتا ہے۔ کون دوسرے کو آواز دے کے میرے آنے یا جانے کا بتاتا ہے۔ کون ذومعنی فقرے بولتا ہے۔ اب اگر ان سب باتوں کا مجھے اندازہ ہے تو ان سب خواتین کو بھی ہو گا جو میری طرح گھر سے باہر کام کے لئے نکلتی ہیں۔

ہمیں یہ مت بتائیں کہ ہمارے مسائل کیا ہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔ ریاست کی سطح پہ خواتین کے تحفظ کے لئے قانون ضرور موجود ہوں گے ۔ لیکن ان پہ عمل کروانے کے لئے ایک الگ خواری کاٹنی پڑتی ہے۔

غیرت کے نام پہ قتل کرنے والے بھائی یا باپ کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔ معاشرہ ایسے مردوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے ان کے کاندھوں پہ تھپکی دیتا ہے کہ واہ بھئی تم تو بڑے غیرت مند ہو۔ غیرت بہن، ماں یا بیوی کی کمائی کھاتے ہوئے کہاں بھنگ پی کے سوئی رہتی ہے مجھے نہیں معلوم۔ جائیداد بچانے کے لئے بے جوڑ شادیاں کر دی جاتی ہیں۔ وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ گواہی کو پورا کرتے کرتے عورت خود آدھی رہ جاتی ہے۔ شادی سے انکار پہ قتل یا تیزاب سے جھلسا دینا عام ہے۔

مائیں تک تو سالن میں سے اچھی بوٹیاں چن کے بیٹوں کی پلیٹ میں ڈال دیتی ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ عورت کو بہت حقوق ملے ہیں۔ گھر سے شروع ہوئی نا انصافی سسرال اور پھر قبر تک عورت کا مقدر رہتی ہے۔ عورت کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ اپنے آپ کو معاشی طور پہ خود مختار کرنے کے بعد ہی وہ معاشرے میں اس قابل ہو سکتی ہے کہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھا کے اسے منوا بھی سکے۔

اگلے عورت مارچ پہ میں بھی ایک پلے کارڈ اٹھائے نظر آؤں گی۔ اس پہ کیا لکھا ہو گا یہ تو اگلی آٹھ مارچ کو ہی پتہ چلے گا۔
تب تک کے لئے جیو اور جینے دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).