بر صغیر کے آٹھ کنوارے انمول رتن


گزشتہ دنوں شکور پٹھان کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا جس میں انھوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے احباب کا بڑے خوبصورت مزاحیہ انداز میں تعارف کرایا ہے، اس تحریر کو پڑھنے کے معاََ بعد یہ خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی اپنے احباب کے بارے میں کچھ لکھوں اس سے مقصد دوستی کو مزید مضبوط کرانا، احباب کی کوششوں کو سراہنا اور ان کی ہمت افزائی کرنا ہے ۔ میرے یہ وہ احباب ہیں جنھیں بھگوان سے وقت سے پہلے ہی بالغ کر دیا، مطلب وقت سے پہلے ہی یہ سب کے سب قوم و وطن اوراپنے خاندان کی فکر میں ایسے کھوئے کہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے، میرے یہ سارے دوست کنوارے ہیں اس لئے اس کا عنوان بھی اسی مناسبت سے رکھا ہے۔
نایاب حسن
انتہائی نستعلیق شخصیت، اردو، عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی کا بہترین ذوق، ادب و انشا کا دل دادہ، شورش و آزاد کا بھکتی اور مرید کی حد تک عقیدت مند، مجال ہے کوئی ان کے سامنے ان بزرگوں کے خلاف ایک حرف بھی بول دے اور جناب برداشت کر لیں۔ تحریریں پڑھ کر کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ یہ اس نوجوان کی تحریر ہے جس نے ابھی زندگی کی تیس بہاریں بھی نہیں دیکھی ہیں۔ ہم خود تحریر پڑھ کر یہی سمجھتے رہے کہ ماہرالقادری، عامر عثمانی اور شورش کاشمیری کے عہد کی کوئی بچی کھچی شخصیت ہو گی۔ وہ تو خدا بھلا کرے میرے دوست راحت زبین کا ایک دن بلا اطلاع دیے مجھے ان کے دولت کدے پر لے گئے، دیکھا تو ایک نوجوان بستر میں دبکا نوازالدین صدیقی کی خود نوشت میں غرق ہے، تھوڑی دیر کے لئے ہم انھیں اور وہ ہمیں دیکھا کیے، جب کچھ خیال آیا تو لپک کر ہمیں گلے لگانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ملاقات بہت اچھی رہی۔ سیلن زدہ کمرے میں کتابوں کے انبار کے درمیان کونے میں دبکے نوجوان کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ بزرگ نہیں جوان ہے۔
ریحان خان
نا کام عاشق، لڑکی، پوا، سیگرٹ، بائک، رومی اور چائے کا رسیا۔ قلم میں غضب کی روانی۔ اس کی تحریروں اور پوسٹ کو دیکھ کر اچھے اچھے دھوکا کھا جائیں۔ جو لوگ اس کے روپ اور سوروپ سے واقف نہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ممبئی کی گلیوں کا کوئی آوارہ لونڈا ہے جو اپنے چھچھوری آنکھوں سے صرف وہی کرتا ہے جس کا ثبوت کبھی کبھی اس کے وال سے ملتا رہتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے کئی رخ ہیں اور ہر رخ لوگوں کو حیران اور ششدر کر دینے کے لئے کافی ہے۔ جب بائک اور اسٹنٹ بازی پر یہ اتر آئے تو پہچاننا مشکل ہے کہ اخبار کے دفتر کا یہ قلم رو ہے یا پھر دنیا کا کوئی بڑا بائکر اور اسٹنٹ باز۔ یہ بندہ عجیب و غریب ہے محبوبہ کے نام اس نے جو خطوط لکھے ہیں پڑھ لیجیے تو ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ بھی پھیکے نظر آئیں گے۔ یہ صرف فلمی دنیا کی کہانیاں لکھنا نہیں جانتا بلکہ سلگتے اور بھبھکتے ہوئے مسائل پر تیشہ زنی کرنا اور اس پر کسی نتیجے تک پہنچنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ قلم کے اس پاگل دھنی سے آپ جو چاہیں لکھوا لیں، اداریہ، فیچر، کالم، فکاہیہ، سنجیدہ کچھ بھی، لیکن یہ سب چیزیں اس کے موڈ پر منحصر ہیں موڈ نہ ہوا تو کوئی مائی کا لعل سے ایک حرف نہیں لکھوا سکتا۔ موڈ اچھا رہا تو ترجمہ، پروف ریڈنگ، ایڈنٹنگ سے لے کر بناو سنگار اور پیج میکنگ تک سب کرنے کو تیار رہے گا۔ اس کے موڈ کو آج تک کوئی نہیں پڑھ سکا ہے اور نہ کوئی پڑھ سکے گا، یہ کب نرم دل اور گرم دل ہو جائے گا نہیں کہہ سکتے، یہ کبھی بھی کسی کے اوپر بھی بھڑک سکتا ہے اور کسی سے بے انتہا پیار کر سکتا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ نرم دل اور ٹوٹ کے پیار کرنے والا شخص ہے جس کو چاہے گا ٹوٹ کے چاہے گا اور جس سے نفرت کرے گا ٹوٹ کے نفرت کرے گا۔
صفی سر حدی
سرحد کی ساری لکیریں مٹا دینے کا خواہش مند، اس کے بس کی بات چلے تو دلی سے پشاور تک اور راول پنڈی سے لکھنؤ تک ساری سرحدیں توڑ پھوڑ کرایک کر دے۔ آرٹ، آرٹسٹ اور ادب اور ثقافت کا حد درجہ عاشق۔ اس عاشق کے بھی عجب نرالے انداز ہیں شیریں کے لئے فرہاد نے پتھر چیر کر راستہ بنا دیا تھا اور جناب نے دلیپ کمار سے ملاقات کے لئے محض ممبئی کا سفر کیا۔ دنیا کا کوئی بھی آرٹسٹ مرے اس کو خدا جانے کہاں سے خبر مل جاتی ہے، ڈھونڈ ڈھانڈ کے اس  کے بارے میں تفصیل سے اپنے فیس بک پیج پر لکھے گا۔ یہ بہت ہی جذباتی قسم کا انسان ہے اور یہی جذباتیت کبھی کبھی اسے بھِیڑ کے ساتھ بھی جانے پر مجبور کر دیتی ہے اور بہت دور تک بھِیڑ کے ساتھ چلا بھی جائے گا، مگر جیسے ہی احساس ہو گا کہ بھیا ہم تو بھِیڑ کے ساتھ کہیں اور نکل آئے ہیں تو پھر پیچھے کی طرف دوڑ لگا دے گا اور مجھے اس کی یہی ادا بہت پسند ہے۔ سرحد کے اس پار ہونے کے باوجود جب کبھی میں سخت سست لکھ دوں تو اس سے گالی سننے کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھنا پڑتا ہے۔ اس کا موڈ کب کسی سے بات کرنے کو چاہ جائے، نہیں کہہ سکتے، کبھی تو رات کے تین بجے بھی گھنٹی کھٹکھٹا دے گا اور کبھی مہینوں خیر خبر ہی نہ لے گا، خطے میں امن کے لئے اس کے جہاد کو دیکھ کر بڑے بڑے جہادی اپنا لنگر لنگوٹ باندھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
رضوان طاہر مبین
لمبا ، تڑنگا ، دبلا پتلا ، ہندی کا رسیا صحیفہ نگار عجیب شخصیت، آزادی کے بعد پاکستان میں واحد بندہ شورش تھا جس نے اکیلے ابو الکلام آزاد کے دفاع میں مورچہ سنبھالا ہوا تھا، کئی مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ مرتے مرتے یہ ذمہ داری شورش نے حضرت رضوان کو دے دی اور کہہ گئے کچھ بھی ہو جائے ابو الکلام آزاد کے خلاف نہ سننا، بھئی ہم نے چند سطریں کیا ابو الکلام پر لکھ دیں، جناب ہمارے پیچھے تو لٹھ لے کر پڑ گئے۔ لیکن ان کے لٹھ میں بھی وہ پیار اور محبت ہوتی ہے کہ اچھے اچھے رام ہو جائیں۔ یہ جناب بھی انھی لوگوں میں سے ہیں جنھیں سرحد کی دیواریں آنکھ کے شہتیر کی طرح کھٹکتی ہیں۔ ہندوستان کا کوئی بندہ کراچی پہنچ جائے مجال ہے رضوان طاہر مبین کی نظروں سے جان بچا کر بھاگ جائے، رضوان نہ صرف اس کو پکڑے گا بلکہ اس سے مکمل گفتگو کر کے اس کو اخبار میں چھاپے گا، یہ ان دکھی آتماوں میں سے ایک ہے جسے آزادی کے نقصان سے لے کر جانوں کے اتلاف اور اندرون و بیرون فلسفہ اور ڈسکورس کا پورا سبق یاد ہے جس سے یہ سوال کرے گا، پانی پلا کے رکھ دے گا۔ اس میں ایک دو سوال ایسا ضرور ہو گا جس میں گلے شکوے مٹا کر گلے لگانے اور سرحدیں پاٹ دینے کی بات ہو گی۔
عزیر احمد
نام ہی سے ظاہر ہے اسم با مسمیٰ عزیر واقعی حمد اور تعریف کے لائق ہے، مجھے اس کی آواز بڑی پسند ہے اور میں نے اسی لئے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ فون پر بات چیت کی ہے۔ عزیر کوئی بہت عمر رسیدہ شخص نہیں ہے، وہی پچیس چھبیس سال کا لونڈا ہے جو حالات زمانہ کا مارا ہوا ہے لیکن اس کی تحریر پڑھ کر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ کوئی بہت بڑا محقق اور فلسفی ہو گا، ہم خود یہی سمجھ رہے تھے اگر ہماری فون پر گفتگو نہ ہوتی تو ہم نہ جانے کیا کیا سمجھ رہے ہوتے۔ بندہ ہے عربی زبان کا لیکن لکھتا اردو میں ہے، کہے گا بھی اردو میں لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے لیکن پھر اردو میں لکھے گا، جب بھی فون کرو یا تو لائبریری کے کسی کونے میں دبکا پڑا ہو گا یا پھر اہل علم و عرفان کی محفل میں گھرا ہو گا جہاں لیکچر بگھار رہا ہو گا۔ کئی مرتبہ اس کو اپنی فکر نہیں رہتی اور کھانا پینا بھی بھول جاتا ہے لیکن قوم کی حالت دیکھ کر جناب کو نیند نہیں آتی اور پوری قوم کو نیند میں دیکھ کر بھوکے شیر کی طرح گرجنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن میری طرح یہ نشتر نہیں چلاتا بلکہ مرہم رکھتا ہے۔
عمران خان عاکف
خان حضرات کی کئی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہےکہ وہ بڑے غصیلے اور ہٹیلے ہوتے ہیں لیکن عمران اتنا ہی معصوم، بے ضرر اور مسکراہٹ بکھیرنے والا شخص ہے۔ ہمارا اس سے رشتہ کم سے کم گیارہ سال پرانا ہے، یہ رشتہ حیدر آباد سے ہے۔ اوکھلا آ گیا اور مجھ سے نہیں ملا تو اس کو قرار ہی نہیں ملے گا۔ ہندوستان کی اردو صحافت میں شاید ہی کوئی ایسا خوش نصیب بندہ ہو گا جس کا استحصال نہ ہوا ہو لیکن ان سب میں اگر استحصالیوں کا امام کسی کو بنانا ہو تو میں عمران خان عاکف کا نام پیش کرنے میں جھجک محسوس نہیں کروں گا۔ عمران عاکف خان سے آپ جب بھی ملیں گے بہت مسکرا کر ملے گا اور اسی مسکراہٹ نے اس کا قتل بھی کیا ہے، لوگ اس کی اسی مسکراہٹ کا فائدہ اٹھا لے جاتے ہیں۔ ہم لاکھ گالی دیں، برا بھلا کہیں لیکن اسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ اس کے بس دو تین ہی تمنائیں ہیں، ایک اچھی سی لڑکی مل جائے، کوئی اچھی سی ملازمت، ایک بڑھیا سا گھر اور مطالعہ کرنے کے لئے ایک وسیع لائبریری جہاں جناب دنیا کی جو چاہیں مل جائے۔ اردو صحافت اور اخبار والوں سے اب اسے اتنی چڑ ہو گئی ہے کہ بھیک مانگنا پسند کرلے گا مگر اردو اخبارات میں کام کرنا پسند نہیں کرے گا۔ کبھی ملاقات ہو تو اردو اخبارات کا تذکرہ مت چھیڑ دیجئے گا ورنہ خان کا غصہ سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
ہما قاسمی
یہ جناب ہما قاسمی ہیں ایسے ان کا پورا نام نازش ہما قاسمی ہے۔ یہ وہی ہما ہیں جو ’’ہاں میں ہی فلاں ہوں‘‘ کے نام سے کالم لکھتا ہے، اس کالم سے وہ اتنا مشہور ہے کہ یار لوگ اب اسے اسی کالم سے پکارنے لگے ہیں۔ ہما ایک بہت نادر و نایاب پرندہ کا نام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ قسمت کی دیوی ہے اور جس پر اس کا سایہ پڑ جائے وہ بادشاہ بن جاتا ہے؛ یہ پرندہ صرف ہڈیاں کھا کر گزارہ کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو ہما پر خود اس کا سایہ نہیں پڑا اور دیوی اس پر مہربان نہیں ہوئی، اسی نا مہربانی کا نتیجہ ہوا کہ ہما کو جس سے پیار ہوا اس نے شادی سے انکار کر دیا، اس نازک وجود پر کیا گزری ہو گی، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ جب اس سے ملیں گے تو یہ اپنا دکھڑا کبھی نہیں سنائے گا، لیکن سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ بظاہر خوب مسکرا اور ہنس کر ملنے والا شخص اپنے ہونٹوں کے پیچھے کتنا غم چھپائے ہوئے ہے۔ ہما ہندی اور اردو دونوں میں لکھتا ہے اور مولوی ہوتے ہوئے اس کے پنڈتوں والی ہندی دیکھ کر پنڈت بھی پناہ مانگنے لگتے ہیں۔ آپ جو ’’منقول‘‘ کے نام سے فیس بک پر شرر بار مزاح دیکھتے ہیں اس کے ایک رکن ہما بھی ہیں۔
فرحان احمد خان
ہمیشہ فرحاں و شاداں رہنے والا نوجواں فرحان احمد خان رہتے تو ہیں لاہور میں، جی ہاں اسی لاہور میں جسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز بلکہ دل کہا جاتا ہے لیکن فرحان خان کا دل کشمیر میں بستا ہے اور بسے بھی کیوں نہ یہ ان کی جنم بھومی ہے۔ فرحان پیشے سے صحافی ہیں لیکن نرے صحافی نہیں انھیں حالات، واقعات، منظر، پس منظر سب کا بڑا علم ہے۔ اسے اپنے پیشے سے جنون کی حد تک محبت ہے اور اس محبت سے اسے سمجھوتا کرنا نہیں آتا اپنی اس محبت کی وجہ سے کئی مرتبہ یہ پٹتے پٹتے بھی بچے ہیں۔ بائک اور گاڑی چلاتے ہوئے بھی ان کے ذہن میں خبر اور اسٹوری چل رہی ہوتی ہے کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس کھوئے ہوئے کی جستجو میں اپنا پرس اور موبائل بھی کھو دیتے ہیں اور پھر خود کو ہی کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جہاں جاتے ہیں چھا جاتے ہیں۔ پہلے اردو ’’ایکسپریس نیوز‘‘ میں کام کرتے تھے اب ’’92‘‘ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہیرا ہیرے کی پرکھ جانتا ہے یہ اپنے ارد گرد ہیروں کا خزانہ رکھتے ہیں آپ اسے کہکشاں بھی کہہ سکتے ہیں آپ دیکھیں گے کہ بڑے بڑے صحافی اور جغادری فرحان کو عزیز رکھتے ہیں یہ ہنر ہر کس و نا کس کو نہیں ملتا اس کے لئے محنت، جستجو اور تگ و دو کے ساتھ ساتھ قابلیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کچھ لوگ تملق پسندی اور چاپلوسی سے بھی یہ اعزاز حاصل کر لیتے ہیں لیکن فرحان کو ان چیزوں سے بڑی نفرت ہے۔ ہم اس کنوارے نوجوان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہ بھی کتابوں کا بڑا کیڑا ہے کوئی اچھی کتاب آ جائے اور فرحان اسے منگا نہ لے نا ممکن ہے، کئی کتابیں تو میں اس کے وال پر دیکھ کر بک کراتا ہوں اور جب پڑھ چکتا ہوں تو چپکے سے بتاتا ہوں کہ میں نے بھی پڑھ لی ہے چپکے سے اس لئے کہ ڈر لگتا ہے کہیں کچھ پوچھ نہ لیں۔

(درویش کو محمد علم اللہ کے احباب میں سے صفی سرحدی اور فرحان احمد خان سے شرف نیاز حاصل ہے۔ ہر دو احباب کی تمام بیان کردہ خوبیوں کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ البتہ میری اطلاع کے مطابق محترم فرحان احمد خان گزشتہ برس کے ابتدائی مہینوں میں مشرف بہ نکاح ہو کر گوہر عفت سے محروم ہو چکے ہیں۔ دوست احباب نے بہتیرا سمجھایا کہ مشکل وقت تو آپ نے گزار لیا۔ اس بڑھوتری کی عمر میں یہ کشٹ کاٹنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔ تاہم فرحان احمد خان نے وہی ناقابل اشاعت عذر پیش کیا جو ابن آدم ایسے مواقع پر پیش کرتا آیا ہے۔ اگر اس انکشاف زوج سے فرحان احمد خان کے نجی امور میں کوئی کھنڈت پڑتی ہو تو اللہ مجھے معاف کرے۔ محض کتمان حق کے خوف سے احوال واقعی بیان کیا ہے۔ مدیر)

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah