پروپیگنڈے کی طاقت


برطانوی مدبر اور سیاست دان بنجمن ڈسرائیلی نے کہا ہے۔ میں الفاظ کی طاقت سے لوگوں پر حکومت کرتا ہوں۔ جو کچھ ہم روزانہ دیکھتے سنتے یا پڑھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں، ہم یہی دیکھنا سننا اور پڑھنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ ہماری غلط فہمی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہمارے دیکھنے سننے اور پڑھنے میں وافر حصہ وہ ہوتا ہے۔ جو ہمیں کسی نے ایک خاص مقصد کے پیش نظر سنایا، دکھایا اور پڑھایا، ٹھیک اسی طرح جیسے اپ ابھی یہی سمجھتے ہیں کہ اپ یہ سب اپنی مرضی سے پڑھ رہے ہیں لیکن میں اپکو نہ صرف پڑھا رہا ہوں بلکہ میرا اپکو یہ سب پڑھانے کا ایک اہم مقصد بھی ہے۔ میں اپکو اپنے خیالات نہ صرف یہ کہ منتقل کر رہا ہوں بلکہ آپ کو اپنے خیالات کے ساتھ متفق کرنے پر قائل بھی کررہا ہوں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں جو کچھ ہم سنتے ہیں دیکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں اس کا غالب ترین حصہ بامقصد پروپیگنڈے پر مشتمل ہوتا ہے۔ پروپیگنڈے کی مختلف شکلیں، اشتہارات، فلمیں، ڈرامے، پبلسٹی، پی آر، سیاسی پارٹیاں، کتب، میگزینز، خبریں، اخبارات، سیمینارز، ورکشاپس، ٹریننگ سیشنز، ریفریشر کوسز، تعلیمی ادارے، ٹاک شوز، انٹرویوز، گیمز، ٹورنامنٹس ”افتتاحی تقاریب، تبلیغی اور معلوماتی ایونٹس، حب الوطنی پر مشتمل گانے اور ریڈیو، ٹی وی کے پروگرام ہوتی ہیں۔

میری طرح آپ کا بھی خیال ہوگا کہ تعلیمافتہ افراد کے مقابلے میں کم تعلیمافتہ یا ناخواندہ افراد پروپیگنڈے سے زیادہ اور آسانی سے متاثر ہوں گے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت لکھی پڑھی اور تعلیمافتہ ہوتی ہے۔ کیونکہ لکھے ہوئے مواد میں اسی فیصد سے زیادہ مواد پروپیگنڈے کی مقصد سے بنایا جاتا ہے۔ اور خواندہ افراد کی پڑھنے کی صلاحیت اور عادت کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ اور آسانی سے پروپیگنڈے کے شکار ہوتے ہیں۔

ناخواندہ پروپیگنڈے کا شکار ہوتا تو ناخواندہ کیسے رہتا؟ پھر لکھا پڑھا صرف خود پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہوتا وہ پروپیگنڈے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ وہ اپنے معلومات (پروپیگنڈا) دوسروں کے ساتھ اس نیت کے ساتھ شئیر بھی کرتا ہے۔ کہ وہ لکھا پڑھا ہے دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ نیز وہ ان معلومات کو اپنا ماہرانہ رائے اور تجزیہ بنا کر بھی پیش کرتا رہتا ہے۔ اور دوسرے کم تعلیمافتہ یا ناخواندہ افراد اس پڑھے لکھے فرد سے یہ سب سننے کے بعد اس پر یقین بھی آسانی سے کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں انہوں نے یہ سب ڈاکٹر صاحب سے، انجنئیر صاحب سے، پروفیسر صاحب سے اور استاد جی سے سنا ہوا ہوتا ہے۔

مذکورہ بالا ذرائع کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈے کے لئے معاشرتی ائیکون بھی استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ معاشرتی ائیکون میں عموماً فلموں اور ڈراموں کے اداکار اور کھلاڑی شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ ائیکون فطری طور معاشرے میں بنے بنائے ہوتے ہیں اور کچھ کو باقاعدہ پروپیگنڈے کے زور بنایا جاتا ہے۔ جو اگے جاکر خود پروپیگنڈے کی مشینری کے اہم اوزار بنتے ہیں۔ مثلاً کسی ایک مخصوص اداکار یا اداکارہ کے بارے میں، مشہور ترین لکھنے والے، مقبول ترین اخبارات میں، مثبت اور شاندار تبصرے لکھتے ہیں۔

ان کی اداکاری اور شخصیت کو افسانوی اور بے مثال بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ اس اداکار اور ادکارہ کے لئے مخصوص، رنگ برنگے اور زبردست کردار لکھے جاتے ہیں۔ بے انتہا دولتمند پروڈیوسرز ان کی فلموں اور ڈراموں پر دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔ اور یوں یہ لوگ محیر العقول افسانوی کرداروں میں ڈھالے جاتے ہیں۔ ان افسانوی کرداروں کی زندگی کے بارے میں پل پل کی خبریں تیار کرکے چھاپی جاتی ہیں۔ ان کی ہر فلم اور ڈرامے کو ناظرین کے لئے اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ناظرین ہر حال میں ان کو دیکھنے جاتے ہیں۔

اور زیادہ لوگوں کے دیکھنے کے اس عمل کو پھر اس فلم اور ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ (مشہور اخبارات اور فلمی ہاوسز یا تو ایک کمپنی یا فرد کی ملکیت ہوتے ہیں یا ان کے کاروباری مفادات باہم منسلک ہوتے ہیں۔ ان اداکاروں کو ناظرین مسلسل اپنے گھروں کے افراد کے ساتھ اپنے گھروں کے اندر دیکھتے دیکھتے غیر محسوس انداز میں اپنی زندگی کا حصہ اور گھر کا فرد سمجھنے لگتے ہیں، بلکہ گھر کا آئیڈیل فرد سمجھنے لگتے ہیں۔

بات یہی ختم نہیں ہوتی ناظرین ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے وقت دولت اور توانائیاں، سب کچھ خرچ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ پھر ان ائیکون کو تیار کرنے والے سنڈیکیٹ اور ٹائیکون، ان کے ذریعے ان کے کروڑوں چاہنے والوں کو، ہپنٹائز کرکے ان کے ساتھ وہی عمل کرتے ہیں جو سڑک کے کنارے چادر کے نیچے لیٹے ہوئے شخص اور ہپناٹزم کے ماہر کے پاس کھڑے بچہ جمہورا تماشبینوں کے ساتھ کرتے ہیں۔

بنائے گئے ان محیر العقول کرداروں کی ایک ایک ادا کو پسند کیا جاتا ہے۔ گھنٹوں ان کا انتظار کیا اور کروایا جاتا ہے۔ ان کے ہئیر اسٹائل اور کپڑوں کی ڈیزائن اور زندگی گزارنے کے طور طریقے کاپی کیے جاتے ہیں۔ اور یوں ان کی اپنائیت میں، غیرمحسوس انداز میں، ان کی ہر بات اپنائی جاتی ہے۔ پھر وہ آئیکون کسی کار بنانے والی کمپنی کی کار کی تعریف (اشتہار) کرتا ہے۔ کروڑوں لوگ وہی کار پسند کرتے ہیں۔ جس کولڈ ڈرنک کو پیتے ہوئے وہ پسند (اشتہار) کرتا ہے لمحوں میں کروڑوں چاہنے والوں کی پسند بن کر بکنے لگتا ہے۔ جس ڈٹرجنٹ پاؤڈر کو بہترین کہتا ہے۔ وہی خریدا جاتا ہے۔ یوں جس مقصد (عوام کو ہپناٹائز) کے لئے بنانے والوں نے اسے ائیکون بنایا تھا۔ وہ وہی مقصد پورا کرتا رہتا ہے۔ اگر ائیکون بنانے پر بنانے والوں کے لاکھوں خرچ ہوئے ہوں تو کروڑوں کماتے ہیں اور کروڑوں خرچ ہوئے ہوں تو اربوں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

اداکاروں کی طرح کھلاڑی بھی کچھ فطری اچھے ہوتے ہیں اور کچھ اچھے بنائے جاتے ہیں۔ ان خاص کھلاڑیوں کو پبلسٹی دے کر ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ ان کو ہیرو، بناکر ٹاک شوز، نیوزبلٹنز اور سوشل ایونٹس میں بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے مخالف ٹیم کے کھلاڑی خریدے جاتے ہیں۔ میچز فکس کیے جاتے ہیں۔ ان کو جتوایا جاتا ہے۔ ان کو ناقابل یقین صلاحیتوں کے مالک اور ملک و ٹیم کے لئے ناگزیر باور کرایا جاتا ہے۔ اور جب وہ کروڑوں ناظرین کے دلوں کے دھڑکن بنتے ہیں۔ تو وہی مقصد ان سے بھی پورا کیا جاتا ہے جو ادکاروں سے پورا کیا جاتا ہے۔ یہ خود بھی کسی اشتہار میں ایک جھلک دکھانے اور بل بورڈز پر کسی پروڈکٹ کے کروڑوں وصول کرتے ہیں اور ان کے بنانے والے بھی اربوں کھربوں اکٹھا کرتے ہیں۔

ان ائیکونز کے لئے لکھے گئے کردار انسانی رویوں کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ، انسانی معاشروں کو تبدیل کرنے کے تجربات میں بھی کامیابی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہی اداکار اور کھلاڑی کارخانوں کی بنی ہوئی اشیاء کے ساتھ ساتھ نظریات اور خواب بھی بیچنے لگے ہیں۔ جن کی مشہور مثالیں، امریکی صدر ریگن (اداکار + سیاستدان) اور شوازنیگر (اداکار + سیاستدان) اور ہمارے اپنے مقبول وزیراعظم عمران خان (کھلاڑی + سیاستدان) ہیں۔

اگر میں اپکی توجہ عمران خان کے فطری بہترین کھیل اور متاثرکن شخصیت سے تھوڑی دیر کے لئے ہٹاکر ان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی تیاری اور مقبول بنانے کی مہم طرف مبذول کرادوں تو اپ حیران ہوجائیں گے۔ کہ تحریک انصاف کو مقبول بنانے کی مہم ڈکٹیٹر مشرف کی زوال کے مہم کا حصہ تھا۔ جب مشرف ڈوبتے سورج کے ساتھ افق میں گم ہورہا تھا۔ تو اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کی مہم چلائی جارہی تھی۔ وکیل جب چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی مہم کے لئے انصاف انصاف کی دھائی دے رہے تھے وہ دراصل تحریک انصاف، تحریک انصاف پکار رہے تھے۔

چوہدری افتخار، منصف اعلیٰ کو انصاف کی ضرورت تھی۔ انہیں بحال کرکے انصاف کا بول بالا کیا گیا۔ چوہدری افتخار، دبنگ انداز میں انصاف کی کرسی پر واپس ہوئے۔ ان کی عدالت میں ملزم اور مجرم کانپتے تھے اور انصاف بولتے ہوئے گونجتا تھا۔ پہلے اخبارات اور ٹی وی پر ان کے لئے انصاف مانگا گیا پھر وہ خود روزانہ خبروں میں نظر آتا رہا اور انصاف زیر بحث رہتا رہا۔ اس دور میں انصاف انصاف کے الفاظ تواتر سے سماعتوں سے ٹکراتے رہیں۔ بولے جاتے رہے لکھے جاتے رہیں۔ یوں انصاف معاشرے کا سب سے بڑا ٹاپک اور استعمال ہونے والا لفظ بنایا گیا۔ آپ کو یقین نہیں، تو ٹھیک ہے۔

میری طرح اپکو بھی فلموں ڈراموں اور ٹی وی پروگراموں کے درمیان اشتہارات اچھے نہیں لگتے۔ اپ بھی اشتہارات کے دوران چینل تبدیل کردیتے ہیں۔ یا عارضی طور پر کوئی دوسرا کام کرنے لگتے ہیں۔ اور اس کے بعد پھر اپنا پسندیدہ چینل دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپکو معلوم ہوگا کہ اشتہار عموماً تیس پینتیس سیکنڈ کے دورانیے کا ہوتا ہے۔ جس کو اپ کبھی کبھار لمحہ بھر کے لئے دیکھ بھی لیتے ہیں۔ لیکن جب اپ کو گھر میں نہانے کا صابن بازار سے خریدنے کے لئے کہا جاتا ہے اپ دکاندار سے نہانے کا صابن نہیں مانگتے بلکہ مخصوص نام کا صابن مانگتے ہیں۔

جب اپکو ڈیٹرجنٹ پاؤڈر لانے کا کہا جاتا ہے اپ ڈیٹرجنٹ پاؤڈر نہیں ایک مخصوص نام کا پاؤڈر مانگتے ہیں۔ سوچئے اشتہارات اپکو پسند نہیں اپ پوری طرح دیکھتے نہیں۔ اور اپ اشتہار میں بتائے گئے اور دکھائے گئے پروڈکٹ خرید لاتے ہیں۔ تو جو کچھ اپ اپنی مرضی (اپکے خیال میں ) سے غور کے ساتھ کئی گھنٹوں تک دیکھتے، پڑھتے اور کہتے ہیں۔ اس کا اپکے ذہن، رویوں اور پسند ناپسند پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یوں انصاف انصاف انصاف کی گردان کرتے، کہتے، سنتے، پڑھتے، تحریک انصاف کو ہر شخص، ہر گھر اور ہر دل تک پہنچایا گیا۔ ایک سریلا ہندوستانی گانا یاد ایا۔

ادمی جو کہتا ہے، ادمی سنتا ہے

زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں

دو چھوٹے بچے فٹبال کے ساتھ کیچڑ میں کھیلتے ہیں۔ ماں گندے بچوں اور گندے کپڑوں سے فکرمند ہوکر ان کو کھیلنے سے روکتی ہے۔ اتنے میں ایک عقلمند اور خوش پوش خاتون آکر ماں کو سمجھاتی ہے۔ کہ بچے کھیل کھیل میں سیکھتے ہیں۔ داغ تو اچھے ہوتے ہیں اور دھلائی کے لئے فلاں ڈیٹرجنٹ پاؤڈر ہے نا۔

ایک اور جگہ دو بچے مٹی میں کھیلتے ہیں ماں بے فکری سے اپنے کام میں مگن ہے۔ ایک عقلمند اور خوش پوش عورت اتی ہے۔ عدسہ نکال کر ماں کو مٹی میں موجود خطرناک جراثیم دکھاتی ہے۔ اور کہتی ہے۔ بچے کو مٹی میں نہ کھیلنے دے۔ کیونکہ مٹی میں موجود مہلک اور خطرناک جراثیم بچے کو بیمار کرسکتے ہیں۔ لیکن فکر کی بات نہیں۔ فلاں صابن کے ساتھ نہانے سے سارے جراثیم مرجاتے ہیں۔ ہم ان دونوں اشتہارات (بمعہ عدسے کے ذریعے جراثیم کے نظر آنے ) پر یقین رکھتے ہیں۔

سچ مانتے ہیں اور ان کے زیر اثر بتائے گئے پروڈکٹس بھی خریدتے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں اشتہارات مختلف (حقائق) بیان کرتے ہیں۔ ایک مٹی میں کھیلنے کو بچے کے لئے صحت مند سرگرمی بتاتا ہے اور دوسرا مٹی میں کھیلنا بچے کے لئے مہلک اور خطرناک بتاتا ہے۔ اور زبردست حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں اشتہارات ایک ہی ادارے کی اشیائے صرف کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہمارے رویوں کو تبدیل کرنے کے ساتھ اشتہارات ہمارے عقائد کو بھی تبدیل کرتے ہیں۔ دس بیس بیماریوں کی ذمہ داری پرانے وقتوں میں کسی صابن کے پاس نہیں تھی۔ کچھ اور ہستیوں کو یہ اعزاز حاصل ہوتا۔

امریکہ پنٹاگون کے زور پر جو جنگیں ہار جاتا ہے پروپیگنڈے (ہالی ووڈ) کے زور پر وہ ساری جنگیں جیت جاتا ہے۔ اور انڈیا (بالی ووڈ) کے زور پر وہ جنگیں بھی جیت جاتا ہے جو اس نے لڑی بھی نہیں ہوتیں۔ پروپیگنڈے کا جادو یہ ہے کہ وہ ساری جنگیں جو حقیقت میں امریکی جنگیں ہیں۔ ان جنگوں کو ویتنام کی جنگ، کوریا کی جنگ، افغانستان کی جنگ، عراق کی جنگ، شام کی خانہ جنگی اور دہشت گردی کی جنگ کہا جاتا ہے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا۔

لیکن دوپٹہ اور چادر سر پر پہننے والی خواتین کا دوپٹہ اور چادر کسی تحریک یا این جی او کی کوششوں کی وجہ سے ان کے سر سے نہیں اترا۔ بلکہ پانچ روپے کے شیمپو کے اشتہار نے اتارا ہے۔ کیونکہ دوپٹہ یا چادر پہن کر کوئی لڑکی یا خاتون اپنے چمکتے، لمبے اور جاندار بال کسی کو نہیں دکھا سکتی، شیمپو کے اشتہار میں کام کرنے والی ماڈل کی طرح۔ یقین نہ آئے تو شادی والے گھر میں خواتین کے پورشن پر ایک تنقیدی نظر دوڑائیں۔

پروپیگنڈے کے زور پر، نورجہاں ملکہ ترنم، مہدی حسن شہنشاہ غزل،  نصرت فتح علی خان قوال اعظم اور علامہ اقبال شاعر مشرق کہلاتا ہے۔ اور مختلف قسم کے سارے غدار چھوٹے صوبوں میں پائے ہیں۔ جبکہ یہ سارے پنجابی زبان میں گانے کی وجہ سے مقبول اور خطاب یافتہ ہیں۔ کیا موسیقی یا گائیگی کا کہیں پر کوئی مقابلہ منعقد کیا گیا تھا۔ جہاں پر ان سب کو اعلیٰ برتر اور بہتر قرار دیا گیا تھا؟ یا کسی سائنسی لیبارٹری میں تجربات کرکے ان کی موسیقی اور آواز کو دوسروں سے بہتر پایا گیا تھا؟

چونکہ پروپیگنڈے کے ذرائع (ٹی وی، ریڈیو، اخبارات، فلم، ڈرامے ) ، مراکز اور پرموٹر زیادہ تر پنجاب میں ہیں اور پنجاب سے ہیں۔ اس لیے سارے خطابات اور القاب آپس میں بانٹے گئے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ سندھ کے گلوکاروں اور موسیقاروں کے کیا نام ہیں؟ بلوچستان میں گائیگی کے استاد اور موسیقی کے کون سے نابغے رہتے ہیں؟ پختونخوا میں کون سی سریلی آوازیں کوکتی اور دل موہتی ہیں اور کون سے تان سین رہتے ہیں؟

پھر مشرق کیا رن آف کچھ سے دیوسائی تک ہے۔ یا چین، جاپان، منگولیا، شمالی اور جنوبی کوریا، سنگاپور، ویتنام، تھائی لینڈ، تائیوان، کمبوڈیا، برونائی، آرمینیا، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈیا، لاؤس، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمنستان، کرغیزستان، نیپال، مالدیپ، مکاؤ، آذربائجان، روس، ترکی، سعودی عرب، عرب امارات، کویت، یمن، اومان، بحرین، قطر، فلسطین، اردن، لبنان، ایران اور عراق وغیرہ بھی مشرق میں ہیں؟ ان مشرقی ممالک کے ہاں کون سے شاعر ہیں؟ کیسی شاعری کرتے ہیں؟ کیا ہم جانتے ہیں؟ کیا ہم ان کو پڑھے ہوئے ہیں؟ سمجھتے ہیں ان کو؟ اگر نہیں تو پھر شاعر مشرق کے لئے کس میدان اور کون سے دنگل میں ہم نے شاعر مشرق کا ٹائٹل جیتا تھا؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani