معاشی ترقی بذریعہ عوامی چیخیں


قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بریفینگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے فرمایا کہ مہنگائی میں اضافے سے عوام کی چیخیں تو نکلیں گی۔ پر مہنگائی تب بڑھتی ہے جب معیشت بحال ہو رہی ہوتی ہے۔ موصوف نے معاشی ترقی کو چیخوں سے بالواسطہ جوڑ کر نا صرف دریا کو کوزے میں بند کر دیا بلکہ ان حاسدین کی ”چیخیں“ بھی نکال کر رکھ دیں جن کی ملکی معیشت پر آہ و زاریاں وقفے وقفے سے سننے کو ملتی تھیں۔ وفاقی وزیر کی قابلیت پر سوال اٹھانے والے شاید یہ بھول گئے کہ ایسے تاریخی کلمات سے دنیا بھر کے معیشت دانوں کی معیشت دانیاں الٹانے والا شخص نا صرف ملک کے معروف تعلیمی ادارے آئی بی اے کے فارغ التحصیل ہیں۔

بلکہ کئی برسوں تک اینگرو جیسی ملٹی نیشنل کمپنی کے سیاہ و سفید کے مالک بھی رہے ہیں۔ پھر بھی قابلیت کا یقین نا آ رہا ہو تو سن لیں موصوف ”جنرل“ عمر کے فرزند ہیں۔ (پہلے مان جاتے تو ہمارا بھی بھرم رہ جاتا ) اور ایسی قابلیت کے حامل فرد کی بات میں وزن نہیں ہو گا تو پھر وزن کی تعریف ہی شاید تبدیل نا کرنا پڑ جائے۔

جن نادانوں کو ابھی بھی اسد عمر صاحب کے بیان کا ادراک نہیں ہوا ان کو بتاتا چلوں کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ نیا پاکستان میں معیشت کی بہتری کا اندازہ اس بار فقط عوام کی ”چیخوں“ سے لگایا گیا ہے۔ ورنہ ماضی کی کتاب کے اوراق الٹائیں تو پتہ چلے کہ کس طرح مسلم لیگ کے دور میں میٹرو بسوں اور موٹرویوں کو معیشت کی بہتری کا معیار بنایا گیا تھا۔ اور دور ختم ہونے پر معلوم پڑا کہ ایسی ترقی کے دھول سے فقط یا توعوام کے پھیپھڑے خراب ہوئے یا پھر لمبے سفر کی سڑکوں کے کنارے مہنگے ہوٹلوں سے معدے۔

پیپلز پارٹی والوں نے تو اپنے دور میں عوام کو جمہوریت کے ٹرک کے پیچھے لگے معاشی ترقی کی بتی جلا کر خوب دوڑایا۔ آخر میں اس دوڑ سے تھکن سے چور لرزتاں ٹانگوں والی عوام کو احساس ہوا کہ مضبوط معیشت ایک خواب اور جمہوریت فقط ایک سراب کا نام تھا۔ جبکہ پرویز مشرف کے دور کو یاد کیا جائے تو ملکی کی مضبوط معیشت کا دفاع ملک میں بڑھتے موٹر سائیکلوں اور موبائل فونز سے کیا جاتا تھا۔ جس کا نتیجہ بھی عام کے سامنے آیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا بھی ابتدائی معاشی ترقی کا پلان دیگر پارٹیوں سے ہر گز مختلف نہیں تھا۔ حکومتی جماعت نے بھی مضبوط معیشت کا ڈھنڈورا ایک کروڑ نوکریوں اور 50,000 گھروں کی تعمیر والے شاپروں میں ڈال کر عوام میں بانٹنا تھی یا شاید اب بھی بانٹنے کی ناکام کوششیں کریں۔ پر لگتا یوں ہے کہ اس بار غربت کی چکی میں پستے عوام کی اللہ میاں سے دہائیاں کام آئیں یا مرحوم جنید جمشید کی گلوکاری کا اثر ہوا کہ وزیر خزانہ نے معاشی ترقی کا راستہ عوام کہ ”چیخوں“ سے بتا کر نا صرف قدرتی اور دیر پا حل تلاش کر لیا بلکہ مسئلہ بھی کافی سستے میں نمٹایا دیا۔

اب بات کریں کہ یہ ”چیخیں“ کیسے ملک کی معیشت کو مستحکم کریں گی تو جناب یہ ”چیخیں“ ہی ہیں جو ماں کے گود سے لے کر بستر پر پڑے مرگ الموت کی ضروریات پورا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ان ”چیخوں“ کی وجہ سے حق داروں کو ان کا حق اور انصاف کے متلاشیوں کو انصاف ملتا ہے۔ بس ان ”چیخوں“ کے لئے وقت کا انتخاب صحیح کرنا چاہیے۔ اگرابھی آپ کسی وجہ سے ”چیخ“ نہیں مار سکتے تو اگلی بار قوم کے لئے الیکشن جیسے کسی فیصلہ کن وقت پر گلا کھنکار کر بلند وبالا ”چیخ“ ضرور ماریئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).