عورتو، صبح ہی صبح تمھیں کیا ہوگیا؟


آج بہت دنوں بعد ددّا صبح ہی آگئی تھیں۔ مَیں نے پوچھا ددّا خیریت تو ہے اتنے دنوں بعد کیسے آنا ہوا؟ بس یہ پوچھنا تھا کہ لگیں اپنے سر کو پیٹنے۔ مَیں نہ کہتی تھی بیٹا کہ اس کے مرنے کے بعد دیکھ لینا سب مشکل میں آجائیں گے، زندگی اجیرن ہوجائے گی، اب اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے؟ کیا ہوا؟ کون مر گیا۔ خیریت تو ہے۔ کس کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ ارے یاد نہیں بیٹا میں کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ دوپٹہ مرگیا دیکھ لو کتنی مشکل ہوگئی۔

ارے نہیں ددّا! آپ دیکھتی نہیں ابھی اکثریت کے کندھوں پہ دوپٹے جھول رہے ہیں۔ ارے چھوڑو! تم کیا باتیں کرتی ہو بیٹا اب کندھوں پہ پڑے دوپٹوں کو چھوڑویہاں توپورا منظر ہی دُھواں دُھواں ہورہا ہے۔ جانتی نہیں تم جو کچھ یہ مُوئی عورتوں نے 8 مارچ کو آزادی کے نام پہ کیا؟ جانتی ہو مارچ کا بنیادی مطلب تو ہے کہ باوقار انداز سے قدم سے قدم ملا کر چلنا لیکن اس روز تو ایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا۔ ہاں ددّا! میں بھی سوچ رہی ہوں ایک زمانہ تھا جب امرتا پریتم نے عورت کے استحصال پہ خون کی ندیاں بہہ جانے پہ کُرلا کُرلا کر وارث شاہ کو آواز دی تھی۔

جب عورت اپنی عزت کے لیے روتی تھی۔ آج تو سب اُلٹ پلٹ ہوگیا۔ آج کی جدید عورت کس چیز کا تقاضا کررہی ہے۔ یہ کون عورتیں تھیں جو ہاتھوں میں بے ہودہ پلے کارڈ اُٹھائے ہوئے سڑکوں پر اپنی عزت نفس کی دھجیاں اُڑا رہی تھیں۔ میں خود ایک عورت ہوں میری بنیادی تعلیم برسوں پہلے کو۔ ایجوکیشن سکول سے ہوئی پھر نیشنل کالج آف آرٹس سے ڈگری لی پھر مزید اورپڑھا۔ زندگی بھر آزادی اور خود مختاری سے جیے اور کام کیا۔ عورتیں جو ”سلیبرٹی“ بن کر کسی عالمی ادارے سے مالی امداد لے کر یہ تحریک چلا تی ہیں کیا ان کو لگتا ہے یہ کامیابی و کامرانی جس کے وہ مزے لے رہی ہیں و ہ ان کی ذاتی بہادری کی وجہ سے ہے تو جناب!

جواب ہے نہیں کیونکہ یہ ساری کامرانی آپ کے والد کی وجہ سے ہے جنھوں نے آپ کو بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ کے ابا نے سکولوں میں بھیجا۔ یوں تو عورتیں بہت ڈینگیں مارتی ہیں کہ ہم تو بہت روشن خیال گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمارے ابّانے ہمیں بہترین جدید سکولوں میں بھیجا اورہمیں اپنی رائے دینے کا کھل کر اختیار تھا وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر یہ سب کیا ہے؟ کون سی آزادی چاہیے۔ آج تک تو ہمارے ملک کی خواتین نے بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جو مسلم ورلڈ کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ آج تک تو مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے نقشِ قدم پہ چلنے کی سعی نہ کی گئی۔ اب عجیب و غریب مطالبے اور تقاضے کیے جارہے ہیں۔

خوش قسمتی سے ہم اسلام کے دائرے میں آتے ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو نہ صرف عزت دی بلکہ وہ حقوق عطا کیے جو برابری کے ہیں۔ میں بات کروں گی امت کی ماں جناب ِ خدیجہ ؓ جن کا لقب اس وقت ”طاہرہ“ تھا جب ابھی اسلام نہیں آیا تھا۔ حضرت خدیجہؓ وہ کامیاب تاجر تھیں جن کی تجارت کے قافلے مکّے سے ملکِ شام اور یمن تک جاتے تھے۔

اس کے علاوہ ہم حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کا شجاعت بھرا کردار دیکھتے ہیں جب وہ غارِ ثور میں دشمنوں کے خوف کے باوجوداپنے بابا اور حضرت محمد ؐ کو کھانا پہنچانے جاتی تھیں۔ ایک اور عظمت کا مینار ہمیں جنابِ زینب ؓ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ جب وہ یزید سے دُو بدُو دلیرانہ گفتگو کرتی ہیں۔ یہ سب مناظر ہمیں یورپ کی کسی تہذیب و تاریخ میں نظر نہیں آتے۔ فیمینزم یعنی حقوق نسواں سیاسی، نظریاتی، معاشی، سماجی اور ذاتی برابری کی وہ تحریک ہے جو ایک مخصوص طبقے میں لکیر کی فقیر کی طرح پیٹی جارہی ہے۔

آج کی عورت تو ہر میدان میں متحرک ہے خواہ بلند چوٹیوں کو سرکرنا ہو یا فضاؤں میں اُڑان بھرنا۔ عورت کی آزادی کی میں حقدار ضرور ہوں لیکن ایسی بے راہ روی کی آزادی جس سے ہماری اور ہمارے ملک کی توصیف خراب ہو وہ ہماری تمنا تو نہیں ہے۔ عہدِ حاضر کی یہ تمام خواتین کاش ان کی بات کرتیں جو تھر کے لق ودق صحرا میں برہنہ پا زندگی کا بوجھ ڈھو تی ہیں۔ کاش یہ ان کی بات کرتیں جو اینٹوں کے بھٹوں میں کام کرتی ہوئی اپنی خواہشوں کو بھٹی میں جھونک دیتی ہیں۔

کاش یہ ان کی بات کرتیں جو جسم فروشی کے ننگے کاروبار میں ملوث تذلیل کی زندگی گزاررہی ہیں۔ کاش یہ ان کی بات کرتیں جو کوہستان کی ایک شادی میں خوش ہوکر تالیاں بجانے کے جرم میں قتل کردی جاتی ہیں۔ کاش یہ ان کی بات کرتیں جو ونی کردی جاتی ہیں۔ کاش یہ ان کی بات کرتیں جو وراثت کا حق کھو دیتی ہیں۔ آج کل کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن اگر ٹی۔ وی یا سوشل میڈیا لوگوں کو درست سمت سے بہرہ مند نہ کرے تو اُلٹا معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔

اس دفعہ کا عورت مارچ جس میں مَیں بھی مدعو تھی اپنی آرٹسٹ اور ترقی پسند تحریک کی عورتوں کی طرف سے صد شکر! کہ مَیں اس کا حصہ نہ تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اس مارچ میں دو سوشل گروپس کے اندر شاید ونر از دی بیسٹ کا ماحول پیدا کرنا تھا۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مرد جب باہر نکلتے ہیں تو ان کی نظریں دوسروں کی ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کا تعاقب کرتی ہیں لیکن اگر ان کی عورتیں غیر مرد کی طرف دیکھ لیں تو ان کی غیرت کو ٹھیس لگتی ہے۔

شرعی مسائل ان کے دل و دماغ میں کروٹیں لینے لگتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں سب سے پہلے مردوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ عورتوں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے ستر کی حفاظت کریں۔ مگر اس عورت مارچ میں عجیب و غریب پلے کارڈ عورتوں کے ہاتھوں میں دکھائی دیے۔ عورت میں شرم و حیا مرد کی نسبت زیادہ ہے۔ عورت کی فطرت رحمن اور رحیم کی صفات سے منور ہے۔ عورت مجسم ایثارو قربانی ہے اور صبرو استقلال میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔

خدا نے اُسے مہر و وفا کی مٹی سے گوندھا ہے۔ ماں کی حیثیت سے اس کا درجہ باپ سے زیادہ ہے۔ اس کی پیدائش ماں باپ کی بخشش کا باعث ہے۔ یورپ کی عورت کو دیکھیں تو صنعتی انقلاب کے بعد حتیٰ کہ وکٹورین ایج میں جب کلاسیکل نمونے ٹوٹے تو وہا ں کی عورتو ں نے ایک لاپرواہی سیکھی۔ اگر غور کیا جائے تو یورپ میں بدترین اخلاقی پستی تب پیدا ہوئی جب مردوزن نے ایک دوسرے کی فکر کرنا چھوڑ دی اور زمین پہ بدترین گنا ہ پیدا ہوئے یعنی ہم جنسیت پیدا ہوگئی۔

ذراسوچیں یہ بگاڑ دنیا کا بدترین بگاڑ ہے۔ مردو عورت دونوں صنفوں میں اختلاف ِ رائے اس وقت پیدا ہوگا جب وہ دونوں خدا کی عطا کردہ فرضِ منصبی کو نظر انداز کریں گے۔ لہذا اپنے اپنے دائرے میں دونوں کو اپنے اپنے درجوں میں برابری کی سطح پہ رہنا چاہیے۔ عورت اور مرد جسمانی طور پر مختلف اعتبار سے ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں۔ آخر میں 8 مارچ کے حوالے سے صرف اتنا کہوں گی جو عورتیں صاحب ِ حیثیت اور طاقت رکھتی ہیں ان کو چاہیے کہ ستم رسیدہ عورتوں کی آواز بنیں۔ ان کے حقوق کے لیے جنگ کریں۔ کشمیر کی مرتی ہوئی عورتیں جن کی عزتیں لُوٹی جاتی ہیں، جن کے بچے مارے جاتے ہیں اُن کی آزادی کے نعرے بلند کریں بخُدا خوشی آپ کے دل میں رقص کرنے لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).