ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات


برصغیر بہت سے مذاہب، زبانوں، تہذیبوں اور رنگوں کی حکمرانی کے زیر اثر رہا۔ آخر کار تاج برطانیہ نے برصغیر پہ اپنے پنجے گاڑے، جو کہ اس وقت کے سرمایہ درانہ نظام کی بہترین مثال تھی۔ بی بی سی پہ ایک رپورٹ تھی جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقاصد لکھے گے تھے۔ اس میں بڑا مقصد برصغیر کے مسالہ جات تھے۔ جو آج بھی آپ کو دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں برصغیر کے ہی ملیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام جہاں بھی ہو۔ انہیں ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے۔ تا کہ فیکٹریوں میں کبھی مین پاور کی کمی نہ ہو۔ انہیں انجنیئر، ڈاکٹر، اکاؤنٹنٹ ضرور چاہیے ہوتے ہیں۔ اس کے لیے سڑکیں بھی چاہیے ہوتی ہیں تا کہ رسد کو کم سے کم وقت میں گاہکوں تک پہنچایا جا سکے۔ اسی بنیاد پہ برطانیہ نے برصغیر میں سڑکیں، ریل اور تعلیم کے نظام پہ بہت اعلی سطح پہ کام کیا۔ اسی نظام کی بنیاد پہ بین الاقوامی سطح پہ ممالک آپس میں خارجی سطح پہ رشتوں میں جڑے ہیں۔ بلکہ بلاک بنے ہوئے سوشلزم اور کیپٹل ازم۔ ہم کبھی چین، روس کے بلاک میں مس فٹ ہوتے اور کبھی امریکہ کی گود کیپٹل ازم والے بلاک میں۔

برطانیہ سے آزادی کے بعد ہمارا ملک سرمایہ دارانہ اثر میں تھا، ہے اور رہے گا۔ یہ الگ کہانی ہے آزادی کیسے ملی اس میں ہمیں اپنے آزادی کے متوالوں کو کریڈٹ دیتے وقت محترم ہٹلر کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جس نے تاج برطانیہ کو برصغیر چھوڑنے پہ مجبور کر دیا۔ ویسے بھی اس وقت دنیا تازہ تازہ بادشاہی نظام سے قومیت پسندی کی طرف آ رہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام ترقی یافتہ ممالک میں مکمل انسانی خطوط کے تحت پالیسی بناتا ہے اور اسی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے وہاں کاروبار کیا جاتا ہے۔

کاروباری لوگ جو بھی چیزیں بیچتے ہیں، پیکٹ پہ جلی حروف کے ساتھ اس پراڈکٹ کی تفصیل درج ہوتی ہے۔ اس طرح آپ اپنی استطاعت کے مطابق سستی اور مہنگی چیزیں خرید سکتے ہیں۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہی نظام بدترین شکل میں موجود ہے۔ جہاں گدھے کو بھینس، کتے کو بکرا بنا کے دیا جاتا ہے۔ جہاں کے ادارے آپ کو ہمیشہ اپنی اتھارٹیز کہیں اور استعمال کرتے نظر آئیں گے۔ ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام اس قدر منفی اثرات کے ساتھ پنجے گاڑ چکا ہوتا ہے، وہاں عدلیہ لوگوں کو انصاف دینے کی بجائے ڈیم بنانے کے لیے پیسے اکٹھے کرتے نظر آتی ہے۔

آپ کو زرعی زمینیں جو سونا اگلتی ہیں، وہاں بڑے بڑے پلازے، بنگلے نظر آئیں گے اور وہ ایسے مقتدر اداروں کی ملکیت ہاؤسنگ پراجیکٹس ہوں گے کہ آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ انہیں تو کہیں اور اپنے ورک رول کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام کے ٹھیکے دار جب یہ دیکھتے ہیں کہ عام آدمی کے پاس اب سوچ آ رہی ہے وہ اس قدر تنگ آ چکا ہے حالات و واقعات کے ساتھ کہ کہیں اور انقلاب نہ پیدا ہو جائے، تو یہ ٹھیکے دار اپنا ایک دلال عام آدمیوں کی صف میں بھیج دیتے ہیں۔ اس دلال کا ہر کام (قول) بظاہر عام آدمی کو بچانے کے لیے ہوتا ہے، مگر اس کا نتیجہ (فعل) سے اس ٹھیکے دار، نظام کی گردن مزید مضبوط ہوتی ہے۔ معمولی عام آدمی کے اندر انقلابی چنگاری مکمل طور پہ ختم ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).