اسلامو فوبیا کی بنیاد کیسے پڑی


نیوزی لینڈ کے سانحے پر پوری دنیا دکھی ہے۔ 50 جیتے جاگتے انسان لمحوں میں جان سے مار دیے گئے۔ اسی پر بس نہیں، اس قتلِ عام کو اس طرح نشر کیا گیا کہ دنیا بھر کے تارکینِ وطن اور خصوصاً مسلمانوں میں دہشت پیدا ہو۔

ملزم ایک 28 سالہ سفید فام ، نسل پرست شخص ہے جو مبینہ طور پہ ‘ اسلامو فوبیا ‘ کا شکار نظر آتا ہے۔

ابتدائی تفتیش سے اس کا ایک ذاتی مینی فیسٹو بھی نظر آتا ہے۔ گویا وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں بلکہ باقاعدہ ایک نظریے کا بانی یا حامی ہے جس کے تحت، مسلمان تارکینِ وطن کو واپس ان کے ملکوں میں دھکیل دیا جائے۔

بظاہر وہ اپنے نظریے کے لیے ہتھیار اٹھانے والا اکیلا شخص نظر آتا ہے لیکن ‘اسلامو فوبیا’ کسی ایک شخص کا نظریہ نہیں، نہ ہی یہ کوئی نظریہ ہے۔ یہ ایک ایسا خوف ہے جو دنیا کی دو ارب آبادی کے لیے باقی دنیا کے دل میں پیدا کیا گیا۔

انسانی تاریخ کے اوراق خون سے چپچپے ہیں۔ کہیں کھوپڑیوں کے مینار ہیں اور کہیں اجتماعی قبریں دریافت ہوتی ہیں۔ انسان واحد جانور ہے جو اپنی نوع کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ وہ واحد مخلوق ہے جسے کسی دوسری مخلوق کے ہاتھوں معدومیت کا خطرہ نہیں ہاں اس کے ہاتھوں آئے دن کسی نوع کے ناپید ہونے کی خبریں آ تی رہتی ہیں۔

صلیبی جنگوں کے بعد انسان مذہب کے نام پر جنگ کرنے سے توبہ پکڑ گیا تھا یا شاید یہ میرا خیالِ خام ہے۔ ایسا ہی جیسا کہ مجھے لگتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انسان نسل پرستی سے کان پکڑ چکا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کمیونسٹ بلاک کو شکست دینے کے لیے کیپٹلسٹ بلاک، مسلمانوں کو اپنی ‘پراکسی’ لڑنے پر نہ لگاتا۔ مذہب کا جن بوتل سے نکالا تو روس کی شکست کے بعد یہ جن آ دم بو آ دم بو کرتا امریکہ پر لپکا۔

 

کرائسٹ چرچ

تب ہی اپنی ذاتی اور اپنے دستِ خاص سے تیار کردہ ملائشیا پر ‘دہشت گرد’ کالیبل لگا دیا گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ کمیونزم کی شکست کے بعد کیپلٹل ازم کو ‘خلافت’ کا بھوت ڈرانے لگا۔ ‘ملا عمر اور اسامہ’ کی شکل میں ایک اور مخالف نظر آ یا۔ یہیں سے ‘اسلامو فوبیا’ کی بنیاد پڑی۔ یہ خوف عوام کو نہیں نظام کو تھا۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ‘دہشت گرد’ افغانستان میں جنگ کر رہے ہیں، شام، یمن، عراق، فلسطین، پاکستان اور کشمیر سب جگہ دہشت گرد متحرک اور فعال ہیں۔ دکھ اورحیرت کی بات پر ہے کہ فوج کو پالنے پر ریاستوں کی کمر دہری ہو رہی ہے لیکن ان دہشت گردوں کو کون پال رہا ہے؟ اس پر کبھی سوال نہیں اٹھا۔

کل ان دہشت گردوں کے مقاصد کیا تھے اور آج ان کے مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالوں پر ذرائع ابلاغ پر کم ہی بحث ہوتی ہے، بات زیادہ تر حملہ آوروں کی مذہبی شناخت اور ان کی کسی گروہ سے تعلق تک ہی محدود رہتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر یہ بات بھی نہیں کی جاتی کہ وہ مسلمان جو بقول ممتاز مفتی ‘منھ زبانی’ مسلمان ہیں ان کا نہ کل ان لوگوں سے کچھ لینا دینا تھا اور نہ آ ج۔

نیوزی لینڈ کا سانحہ صرف اس وجہ سے پریشانی کا باعث نہیں کہ اس میں اتنے انسان مارے گئے۔ یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔ کیا ‘اسلامو فوبیا’ بھی ’دہشت گردی ‘ کی طرح کی ایک اصطلاح ہے جو آج کانوں کو نامانوس محسوس ہو رہی ہے لیکن کل یہ دنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کے لیے کوئی اگلی آفت بپا کرے گی؟

نسل پرستی کی اس نئی لہر کا رخ واضح نظر آ رہا ہے۔ گو میں بہت کوتاہ بین اور کم عقل ہوں لیکن بریٹن ٹرینٹ ایک فرد نہیں ایک سوچ ہے۔ انڈیا میں ہندو توا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں نسل پرستی کی نئی لہر، امریکہ اور یورپ میں اسلامو فوبیا یہ سب کہانیاں نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی ‘اتحاد بین المسلمین’ قسم کے مضمون کا ابتدائیہ ہے۔

یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے جس قدر جلد سمجھ کے سنبھال لیا جائے اسی قدر بہتر ہو گا۔ جنگوں کی ماری یہ دنیا ایک اور ہولو کاسٹ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

بریٹن ٹیرنٹ کا یہ فعل برفانی تودے کی نوک ہے۔ اس کے نیچے ایک بہت بڑا پہاڑ موجود ہے۔ اگر ‘اسلامو فوبیا’ نامی اس جن کو بھی بوتل سے باہر نکا ل لیا گیا تو کوئی بڑا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔

مجھے امید ہے دنیا کے امن کے ٹھیکیدار اس مسئلے کا کوئی سنجیدہ حل نکال لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).