کراچی کی واہ سندھ کی آہ!


دسمبر رات 8 بجے کراچی کا ٹکٹ تھا۔ ہم وقت سے پہلے ہی فیصل آباد کے ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہوئی رات گزری، صبح ہوئی اللہ اللہ کر کے 42 گھنٹے کا سفر طے کر کے اگلی رات 8 بجے کراچی کے ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ 02 دن کراچی میں گزارنے کے بعد اندازہ ہوگیا کہ کراچی واقعی میں ایشیاء کا پیرس اور روشنیوں کا شہر ہے۔ اس شہر کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی ہیں۔ اسی لئے گلگت بلتستان سے لے کر بلوچستان تک کے لوگ آپ کو یہاں نظر آئینگے ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پورا پاکستان کراچی میں آن بسا ہے۔

اس شہر کو غریبوں کی ماں کا درجہ بھی دیا گیا ہے کیو نکہ پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت یہاں روزگار کے اور غریب کے لیے سستی زندگی گزارنے کے مواقعے بھی عام ہیں۔ چاہے آپ کا جس شعبے سے بھی تعلق ہویہاں آپ کو آپ کے شعبے کے مطابق کام آسانی سے ملے گا۔ اسی لیے تو یہاں اچھی زندگی گزارنے کے لئے مواقعے دستیاب ہیں۔ کراچی کے لوگ بھی اپنے شہر کی مانند دوسروں کی زندگیوں میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔ یہاں کے صاحب حیثیت لوگ ملک کے اکثر امدادی و فلاحی کا موں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بانی پاکستان قائدآعظم محمد علی جناح، بابائے خدمت عبدالستار ایدھی اور مادر ٹریسا روتھ فاؤ جیسے عظیم ہستیوں کا اعزاز بھی کراچی کو حاصل ہے جنہوں نے اپنی آخری سانس تک خاص طور پر کراچی کو اور پورے پاکستان کو اپنی خدمات اور پیار سے نوازا۔

یہ تو تھا کراچی جو سب کو اچھا لگتا ہے اور سب کی نظروں میں ہے۔ کیا تھر پارکر بھی کسی کو اچھا لگتا ہے؟ کیا کیٹی بندر بھی کسی کی نظروں میں ہے؟ کیا سندھ میں صرف کراچی ہی ہے؟ نہیں ایک سندھ کراچی سے باہر بھی ہے اور اتفاق سے مجھے دو دن کے لئے سندھ گھومنے کا موقعہ بھی ملا اور میں نے دیکھا کہ سندھ کے حکمران یہاں کے لوگوں کو انسان نما جاندار اور شاید اشرف المخلوقات سے کم درجے کے انسان تصور کرتے ہیں۔ طاقت اور دولت کی کالی پٹی ان کے آنکھوں پر بندھی ہوئی ہے۔

یہ سندھ کا اصل اور چھپا ہوا چہرا ہے جو کبھی کبھار دھندلا دھندلا نظر بھی آجاتا ہے۔ یہاں کراچی کی روشنیوں اور بلند عمارتوں کے برعکس بے روزگاری، جہالت، بھوک اور پیاس کی تاریکیاں دن کے اُجالے کو بھی رات میں بدل دیتی ہیں۔ ہم نے سندھ کی غربت کو سندھ کے دیہاتوں میں چھپا دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مردے کو قبر میں دفنادیتے ہیں۔ سندھ کے بڑے شہر کراچی سے باہر آجائیں اور چند امیر گھرانوں کو چھوڑے تواحساس ہوتا ہے کہ سندھ میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارہویں دنیا میں رہتے ہیں۔ یہاں تو لوگ غربت اور بے روزگاری کے سمندر میں بہ رہے ہیں، ننھے ننھے بچے غزائیت کی کمی کی وجہ سے موت کی نیند سو رہے ہیں ِ، حکمران حکمرانی کے نشے سے مست خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

ایک طرف کراچی کی فلک بوس عمارتیں اور اپنائیت ہے اور دوسری طرف سندھ کی بدحالی، مظلومیت اور جاگیردارانہ نظام ہے اور میں درمیان میں بیٹھ کر کبھی کراچی کا سوچتا ہوں اور کبھی سندھ کا اور مجھے سمجھ نہیں آتی اصل حقیقت کیا ہے؟ کراچی کی واہ یا سندھ کی آہ! ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).