کعبہ بڑے داتا کا گھر ہے ۔۔۔ اور فقیروں کا پھیرا


کعبہ جانے کا کب سے ارمان تھا۔ ہر ایک مسلمان کو ہوتا ہے کہ زندگی میں ایک بار اس مقدس مقام کی زیارت نصیب ہو جائے۔ لیکن وہ الگ بات کہ جب ایک بار اس جگہ سے ہو آئیں تو پھر دل بار بار جانے کو مچلتا ہے۔ مجھے بھی ہر مسلمان کی طرح اس مقام کی زیارت کا شوق تھا۔ ہر دعا، ہر آرزو اس پر ختم ہو جاتی کہ ایک بار بلاوا آجائے۔ لیکن میں ہمیشہ ساتھ میں یہ بھی کہتی کہ اللہ جی میں نے بڑھاپے میں نہیں آنا۔ سو دعا میں یہ کہنا کبھی نہ بھولتی کہ بڑھاپے میں نہیں آنا میں نے بلانا ہے تو ابھی بلاؤ۔

بھئی اب اللہ تعالی تو اپنا ہی ہے اس سے جیسے چاہے مانگو لاڈ سے یا تڑی سے یا عاجزی سے۔ کہ وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے اور سننی تو اسی نے ہے تو پھر جیسے چاہے مانگو وہ سنتا ہے۔ سو میں ہمیشہ دعا کرتی کہ میں اپنے قدموں پہ چل کے آؤں، تاکہ ان مقدس درودیوار کوچھو سکوں، چوم سکوں۔ مجھے سہاروں کے ساتھ نہیں آنا۔ مجھے اس وقت بھی نہیں آنا جب مجھ میں کھڑا ہونے کی سکت نہ ہو، جھک کر خدا سے راز ونیاز نہ ہو سکیں، زمیں پر جبین کو لگا کر سجدوں کی طاقت نہ ہو، اس وقت کیا کرنے آؤں گی۔

بھئی اپنی اپنی عادت ہے میں اللہ سے ایسے ہی مانگتی ہوں لاڈ کے ساتھ۔ ہمارے ہاں یہ ایک قدیم اور پختہ روایت ہے کہ ہمارے ہاں کے لوگ بستر مرگ پر ہوتے ہیں تو انھیں حج، عمرہ کرنا یاد آتا ہے اور وہ یہ سوچے بنا کہ یہ مشقت طلب عبادت ہے، اب ان کے بس میں یہ مشقت ممکن نہیں، سو گرتے پڑتے وہ حجاز کے سفر پرنکل پڑتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ادھر ہمارے پاکستانیوں کے سوا کوئی بھی اس حالت میں نہیں آتا۔ ساری عمر ہم جانے کی چاہت رکھتے ہیں، لیکن ہمارے کام یا وسائل ہمیں اجازت نہیں دیتے۔

پھر جب زاد راہ اکٹھا ہوتا ہے تو ہم دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اور دوسروں کو امتحان میں ڈالنے کے لئے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ کئی لوگ اپنی طرف سے ایک نیکی کرتے ہیں کہ وہ بزرگ، ان پڑھ خواتین کو اکیلے حج یا عمرہ پر بھیج دیتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ ان خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔ وہ اکثر وہاں جا کر کھو جاتی ہیں۔ انھیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے۔ اور پھر ان کو مالی مشکلات بھی بہت ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں سے التجا ہے یا تو ان کے ساتھ ان کے محرم کا بندو بست کیا کریں یا پھر انھیں اکیلے نہ بھیجا کریں کیونکہ وہ وہاں جا کر بہت مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔

خیر یہ بات بھی ہے طے ہے کہ جس کی حاضری جب ہونا ہو اس نے تب ہی جانا ہے۔ میں بھی دن رات آواز کے پڑنے کی منتظر تھی۔ جانے والوں کوحسد سے تکنا کہ کاش میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوجاؤں۔ کاش میرے مقدر کا ستارہ بھی چمکے اور طیبہ کی فضاؤں میں سانس لینا نصیب ہو، روز نکلنے والا سورج اور ڈھلنے والی شام میری فریادوں میں تیزی لاتیں کہ عمر رواں کا اک اوردن بیت گیا، بلاوا اب بھی نہیں۔

اب نہیں تو کب؟ درود و سلام کی تسبیحات جمع کرتی رہتی کہ جاکر پیش کروں گی۔ لیکن جب بھی کوئی مدینہ کا مسافر ہوتا تو سلام کے ساتھ درود کا تحفہ بھیج دیتی۔ اور حاضری کے لئے پھر سے درود و سلام پڑھنا شروع کر دیتی۔ اس قابل تو ہر گزنہیں تھی مگر ان کی نگاہ پڑ گئی۔ ان کی نظر کرم نے مجھ کو بخت آور کردیا۔ التجائیں، فریادیں سن لی گئیں، انتطار ختم۔ ہوا، خواہش پوری ہونے جا رہی تھی۔ اور مجھے آخری لمحے تک یقین نہیں تھا کہ میں سچ میں جا رہی ہوں۔

وجہ یہ تھی کہ کتنے سالوں سے پلان کر رہے تھے لیکن جانے کیا بات تھی کہ آخری ٹائم کچھ ایسا ہوتا کہ جانا ملتوی ہو جاتا۔ جدہ ایئر پورٹ سے ارض مقدس کی طرف جاتے ہوئے دل کانپ رہا تھا۔ خوف، ڈر بہت کچھ تھا کہ یہ زمین بہت مقدس ہے اور میں گنہگار۔ ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھا اور ایک گھنٹے بعد ہم لوگ حرم جانے کو نکل گئے۔ حرم پاک میں داخل ہوئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ کعبہ کی زیارت کے لئے ابھی کافی فاصلہ طے کرنا پڑا کہ حرم ماشاءاللہ بہت بڑا ہے۔

پھر ایک پر شکوہ عمارت پر نظر پڑی۔ جو چوکور تھی، جس کے اوپر کالا غلاف تھا اور اس پر سنہری حروف کندہ تھے۔ کہنے کو کعبتہ اللہ ایک عمارت ہے لیکن کیا پرشکوہ، حسین عمارت ہے کہ جس کے سامنے آتے ہی جسم پر لرزہ طاری ہو جائے۔ جس کے نور سے آنکھیں منور ہو جائیں، جس کا حسن مبہوت کر دے۔ مجھے بس اتنا یاد ہے کہ اس عمارت کو دیکھنے کے بعد کچھ یاد نہیں رہا۔ سر سجدے میں تھا اور اشکوں کی روانی تھی۔ سجدہ شکر ادا کیا۔ اور عمرہ کے طواف کی نیت کی۔

اور پھر ہم بھی اس ہجوم کاحصہ بن گئے جس ہجوم میں شامل ہونے کو ترستے تھے۔ طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر نفل ادا کیے۔ چونکہ احرام کی حالت میں تھے سو چاہنے کے باوجود خانہ کعبہ کو ہاتھ نہ لگا سکے۔ سعی کی، نوافل ادا کیے، عشاء کی نماز ادا کی اور ہوٹل واپس آگئے۔ غسل کیا جس سے سفر کی تھکن اور احرام کی پابندی دونوں اتر گئے۔ بہت تھکن تھی سو صبح چار بجے کا الارم سیٹ کیا اور نیند کی وادی میں چلے گئے۔ اگلے دن احرام کی پابندی نہیں تھی تو جی بھر کے خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ چمٹے۔

ہم نے طواف بعد میں شروع کیا پہلے ان درو دیوارکے ساتھ خود کو لپٹانا چاہا جس کی کشش اپنی طرف کھنچتی ہے۔ ان دیواروں میں جانے کیسی مقناطیسی کشش ہے کہ ساتھ لگیں تو چھوڑتی نہیں جب تک کہ کوئی کھینچے نہیں۔ جسم ان دیواروں سے آزاد نہیں ہوتا تھا اور آنکھوں سے اشکوں کا ناتا نہیں ٹوٹتا تھا۔ خانہ کعبہ کی چاروں دیواروں سے لپٹ لپٹ کر خوب التجائیں کیں۔ اس کے دروازے کو ہاتھ لگایا۔ خطیم میں نفل ادا کیے حجر اسود کو ہاتھ لگے۔ بوسہ نہ لیا جا سکا۔ جس کا دکھ ہے لیکن خوشی اور تشکر بھی ہے کہ سب کچھ اپنے پیروں پہ چل کے کیا، بنا سہاروں کے۔ جی بھر کے طواف کیے۔ اس کی عنایت سے عمرے ادا کیے۔ کچھ دنوں بعد مدینہ روانگی تھی۔ چھ گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد ہم شہر نبی میں داخل ہوچکے تھے، ان معطر فضاؤں میں سانس تو لے چکے، جنت البقیع میں سلام بھی کرچکے تھے۔ لیکن دل کو سکون توجب ملتا جب روضۂ رسول پر حاضری ہو جاتی اور اس کے لئے کافی انتطار درکار تھا۔

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

خواتین کے لئے ٹائم مخصوص ہے۔ فجر، ظہر اورعشاء کے بعد۔ اور ان وقتوں میں بھی بہت طویل انتظار۔ نماز سے ایک گھنٹے پہلے پہنچ جاؤ اور نماز کے بعد دو گھنٹہ تک انتظار کرو۔ ریاض الجنہ میں جانے کے لئے۔ ریاض الجنہ میں ہی روضہ رسول ہے۔ طویل انتظار کے بعد کہیں جا کر دروازہ کھلا۔ کافی فاصلہ طے کرنے کے بعد اس مقدس جگہ جایا جاتا ہے۔ لیکن ایک بری حرکت جو خواتین کرتی ہیں کہ بھاگنا شروع کردیتی ہیں گو کہ ہر ایک کی خواہش۔ ”سب سے پہلے اس کی حاضری ہو جائے“ لیکن نبی پاک کے در پر تو عاجزی سے جانا چاہیے لیکن یہ سوچنے کی فرصت کسے۔ خیر درود و سلام پڑھتے سبز قالین تک پہنچے اور اس پہ قدم رکھتے ہی پورے جسم پر ایک بار پھر لرزہ طاری ہو چکا تھا۔ جس سنہری جالی کے خیال میں تھے، وہ نظر نہ آئی۔ اس کی جگہ ایک سفید پلاسٹک شیٹ کا پردہ تھا۔ جس کے اوپر سے سنہری جالی کا تھوڑاسا حصہ نظر آتا تھا۔ سنہری جالی کے تصور میں سفید پلاسٹک کے پردہ سے لپٹ کر نبی پاک کے حضور درود و سلام پیش کیا۔

آنسو تھے، آہ و زاریاں تھیں، التجائیں تھیں، مناجات تھیں، فریادیں تھیں۔ وہ سب بیان کیا جو وہ پہلے سے جانتے تھے۔ میں اس پردے سے لپٹ کر حال دل سنا رہی تھی، درود کا نذرانہ پیش کر رہی تھی، آنسو بہا رہی تھی۔ سبز قالین پر نفل ادا کیے۔ جس جگہ سبز قالین بچھا ہے اس جگہ کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ جگہ جنت کے باغ کا حصہ ہے۔ جس نے ادھر نماز ادا کی اس نے گویا جنت میں نماز ادا کی۔ سو درود و سلام پیش کرنے کے بعد اس سبز قالین پر جگہ بدل بدل کر نماز ادا کی۔

خدا قبول کر لے۔ جتنے دن مدینہ رہے اتنے دن ریاض الجنہ میں جا کر نوافل ادا کیے۔ مجھے کہیں اور نہیں جانا تھا۔ زیارتوں کے لئے بھی نہیں۔ کہ میرا دل یہیں تھا۔ اور مجھے یہیں رہنا تھا۔ اور دل کی کیفیت کیا تھی مجھے خود بھی نہیں پتہ اور کیفیت بیان کرنا میرے بس سے باہر بھی ہے۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ ان معطر فضاؤں میں میری آنکھوں سے آنسو نہیں تھمے، وہ لمحہ طواف کا ہو، سعی کا، کعبتہ اللہ کی زیارت کا یا درِ نبی میں حاضری کا۔ بس خدا میری اس کیفیت اورمیرے بہنے والے آنسوؤں کو قبول کرلے۔ آمین۔ ہم واپس آچکے ہیں لیکن دل ادھر رہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).