کیا عورت انسان نہیں؟


پڑھنے کا شوق بچپن سے تھا، گھر میں کتابوں اور رسائل کی فراوانی تھی۔ پڑھنے پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ اس لئے جو بڑے پڑھتے تھے، وہ ہم بھی پڑھتے تھے، خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اتنا یاد ہے کہ لکھنے والے زیادہ تر مرد حضرات تھے اور ان کا محبوب موضوع ’عورت‘ تھا۔ ’عورت ایک پہیلی ہے۔ عورت یہ ہے۔ عورت وہ ہے‘ ۔ کچھ عرصہ تک تو ہم مرعوب رہے لیکن پھر خیال آیا۔ آخر ان مرد حضرات کو بھلا کیا پتا کہ عورت کیا سوچتی ہے۔ کیا محسوس کرتی ہے۔ اس کے دل پر کیا گزرتی ہے؟

یہ سب تو ایک عورت ہی بتا سکتی ہے لیکن ایک تو لکھنے والی عورتیں کم تھیں، دوسرے عورتوں کے رسائل میں شائع ہونے والی تحریروں اور عورتوں کے ناولوں کو مرد حضرات ’ادب‘ ماننے کو تیا رہی نہ تھے۔ دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح ان رسائل میں لکھنے والیوں کو دوسرے درجے کی ادیب سمجھا جاتا تھالیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ سو سنار کی ایک لوہار کی تو اردو ادب میں رشید جہاں، عصمت چغتائی اور پھر قرۃ العین نے بڑے بڑے مرد ادیبوں کے چھکے چھڑوا دیے۔

اپنے کام اور صلاحیتوں کو منوانے کا معاملہ صرف ادب تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو منوانے کے لئے عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں دو گنا جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ پہلے تو خیر یہی کوشش کی جاتی رہی کہ عورتوں کو گھر کی چاردیواری میں ہی بند رکھا جائے۔ کافی عرصہ تک ایسا ہوا بھی۔ پاکستان بننے سے پہلے کی زوال پذیر فیوڈل اور مڈل کلاس کی عورتوں کی حالت زار کا جائزہ لینا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔

ان عورتوں سے میرا تعارف مرد ادیبوں کی کتابوں کے ذریعے ہی ہوا۔ مسلمان گھرانوں کے لڑکوں کو تو پڑھنے کے لئے علی گڑھ یا ایسے ہی تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز میں بھیج دیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ کریکٹرز جن پر کتابیں لکھی گئیں، فیل ہوتے رہتے تھے اور سالوں واپس گھر آنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ ان کی شامیں کوٹھوں پر گزرتی تھیں کہ اس زمانے میں شرفا کے لڑکوں کو معاشرتی آداب سکھانے کے لئے طوائفوں کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ ان لڑکوں کی شادیاں جلدی کر دی جاتی تھیں لیکن وہ حویلییوں کی چار دیواری میں بند اپنی بیویوں کے پاس کم ہی جاتے تھے۔ یہ شریف زادیاں خون تھوکتی ہوئی مر جاتی تھیں۔

ان حالات میں لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں کون سوچتا لیکن پھر ہوا یہ کہ عورتوں کی جہالت اور توہم پرستی خود ان کے مردوں کے لئے مصیبت بن گئی۔ پھر سوچا گیا کہ اتنی تعلیم تو دو کہ دھوبی کا حساب کتاب لکھ لیں مگر اتنا مت پڑھاؤ کہ لڑکوں کو خط لکھنے لگیں اور گھروں سے بھاگ جائیں، چنانچہ ان کے لئے ”بہشتی زیور“ جیسی کتاب لکھی گئی جو انہیں جہیز میں تحفے میں دی جاتی تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد کے قلم کے ذریعے ”اکبری“ اور ”اصغری“ جیسے کردار سامنے آئے۔

برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد اور تحریک پاکستان کے نتیجے میں عورتوں کے سماجی و سیاسی کردار میں تبدیلی آئی۔ لڑکیوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ محمد علی جناح نے سیاسی سرگرمیوں میں فاطمہ جناح کو ساتھ رکھ کر مسلمان مردوں کو صنفی مساوات کا پیغام دیا۔ پاکستان بننے کے بعد تعلیم اور طبی شعبے کو خواتین کے لئے قابل قبول سمجھا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ خواتین نے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا سکہ جمایا۔ یہاں تک کہ ایک عورت یعنی بے نظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بھی رہی۔ پاکستانی عورت اسٹیٹ بنک کی گورنر، یونیورسٹی کی وائس چانسلر رہی۔ ملالہ نے نوبل انعام حاصل کیا، ثمینہ بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کی۔ اسی طرح دیگر شعبوں میں خواتین کے نام ملیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حصول تعلیم اور ملازمت کے بعد کیا عورتوں کے مسائل حل ہو گئے؟ تعلیم کی افادیت سے تو کوئی ذی ہوش انکار نہیں کر سکتا لیکن ملازمت کرنا عورت کے لئے کس قدر سود مند رہا، یہ بحث طلب بات ہے۔ پہلے مرد اور عورت کے درمیان تقسیم کار بہت واضح تھی۔ مرد کما کر لاتا تھا اور عورت گھر سنبھالتی تھی۔ اب عورت کما کر بھی لاتی ہے اور گھر بھی سنبھالتی ہے اور بچے پیدا کرتی اور پالتی بھی ہے یعنی اب اسے دہرا تہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور سماج اور مرد اس پر احسان بھی جتاتا ہے کہ تمہیں گھر سے نکلنے اور کام کرنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔ جب کہ مرد کے کردار اور مراعات پر کوئی فرق نہیں پڑا، الٹا اسے فائدہ ہی ہوا۔ اگر عورت کو دہرا تہرا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے تو پھر وہ گھر سے باہر نکلنے اور کام کرنے پر بضد کیوں ہے؟ ایک مذہبی جماعت کی خواتین کے بقول ’گھر میں شہزادی بن کے رہے‘ ۔

سیدھی سی بات ہے، مرد کو عزت اس لئے ملتی ہے کہ وہ کما کر لاتا ہے اور خاندان کا کفیل ہوتا ہے۔ عورت بھی اپنے لئے عزت چاہتی ہے، اس لئے وہ بھی کمانا اور خاندان کی کفالت کرنا چاہتی ہے کیونکہ دیگر کام جو وہ کرتی ہے یعنی گھر سنبھالنا اور بچے پالنے کا اسے کوئی معاوضہ نہیں ملتا اور یہ سماج اس کی عزت کرتا ہے جس کے پاس پیسا ہے۔ عورت یہی سمجھتی ہے کہ اگر اس نے اقتصادی خود مختاری حاصل کر لی تواسے بھی وہی مقام و مرتبہ اور عزت ملے گی جو مرد کو حاصل ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہوتا ہے؟

جی نہیں، گھر میں مرد کا ہی حکم چلتا ہے۔ کمانے کے باوجود عورت اکثر گھروں میں پٹتی بھی ہے۔ مرد یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اسے جو برتری حاصل تھی وہ خاندان کا کفیل ہونے کے باعث تھی اب اگر عورت بھی اس کا ہاتھ بٹا رہی ہے تو پھر کیسی برتری۔ اب تو مساوات ضروری ہے۔ مردوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب سماجی انصاف اور مساوات کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ میری رائے میں اس وقت دنیا بھر میں تحریک نسواں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ عورت نے تو گھر سے باہر نکل کر مرد کا اقتصادی بوجھ ہلکا کر دیا ہے لیکن مرد گھر کے کاموں اور بچوں کی پرورش میں اس کا ہاتھ بٹانے کو تیار نہیں اور گھریلو کاموں کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ بات ساری یہی ہے کہ جس کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا، اس کی کوئی قدر نہیں کرتا ورنہ باہر کی دنیا میں تو مرد بہترین شیف (باورچی) اور درزی ہیں مگر وہی کام گھر میں کرنا پڑے تو اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ساری عورتیں شوقیہ ملازمت کرتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر ایک تعلیم یافتہ لڑکی کے نقطہء نظر سے سوچیں تو اس نے بھی اپنی زندگی کے اتنے ہی سال تعلیم کے حصول میں لگائے ہوتے ہیں جتنے کہ ایک لڑکے نے اور امتحانات کے نتائج گواہ ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں بہتر تعلیمی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اب ڈگری کے حصول کے بعد جب لڑکی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھر بیٹھے اور شادی کر کے بچے پالے اور گھر سنبھالے تو اسے تو یہی لگتا ہے کہ اس کی اتنے سالوں کی محنت ضائع چلی گئی اور جو کام اسے کرنے کو کہا جا رہا ہے، اس کی کوئی قدر ہے نہ معاوضہ کیونکہ جب مرد سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہاری بیوی کیا کام کرتی ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ میری بیوی کام نہیں کرتی وہ ہاؤس وائف ہے۔ شاید اسی لئے عورتیں ’ہاؤس وائف‘ کی اصطلاح سے چڑنے لگی تھیں اور اب ’ہوم میکر‘ کی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔

پاکستان کے تناظر میں ڈگری اور ملازمت کاحصول صرف اعلیٰ اور متوسط طبقے تک محدود ہے کیونکہ تعلیم یہاں ایک لگثرری یا پر تعیش شے بن چکی ہے۔ اعلیٰ تعلیم تک غریب لڑکوں اور لڑکیوں کی رسائی کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل پاکستان کی خواتین کے مجموعی مسائل کا صرف ایک حصہ ہیں۔

دفتروں میں کام کرنے والی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ کم پڑھی لکھی خواتین گارمنٹس انڈسٹری، فارما سیوٹیکل صنعت میں پیکیجنگ کا یا دیگرکارخانوں میں مختلف قسم کے کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اچھی خاصی تعداد میں عورتیں ہوم بیسڈ ورکرز یا گھر مزدور کی حیثیت سے بھی کام کرتی ہیں، یعنی وہ خواتین جو اپنے گھر یا اپنی پسند کی جگہ پر کام کرتی ہیں مگر آجر کی جگہ یا کارخانے میں جا کر کام نہیں کرتیں۔ سندھ میں ان خواتین کے لئے قانون بن چکا ہے اور ان کو وہی درجہ دیا گیا ہے جو صنعتی مزدوروں کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو ملازماؤں (ماسیوں ) کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔

عورت جب گھر سے باہر نکلتی ہے خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو، اسے کسی نہ کسی قسم کی جنسی ہراسانی کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ ہراسانی کی پہلی شکل مردوں کا عورت کو گھورنا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں کوئی سترہ اٹھارہ سال پہلے ایک سیشن میں جب میں نے کہا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو گھورتا ہے اور وہ اس وجہ سے بے چین یا پریشان ہوتی ہے تو میں اسے جنسی ہراسانی کہوں گی۔ یقین کیجئے کہ وہاں موجود اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد ناراض ہو گئے تھے اور وہ یہ ماننے سے انکاری تھے کہ مردوں کا عورت کو گھورنا جنسی ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے۔

گھورنے کے بعد عورتوں پر جملے کسنا، انہیں چھونے کی کوشش کرنا، دفتروں میں ذو معنی جملے استعمال کرنا، عورتوں کے بارے میں اسکینڈل پھیلاناجنسی ہراسانی کے اگلے مرحلے ہیں جب کہ انتہائی مراحل میں تیزاب گردی، ریپ اور گینگ ریپ شامل ہیں۔ اب اس کا حل یہ نکالا جاتا ہے کہ عورتوں کو گھر کی چار دیواری میں بند کر دو کیونکہ اگر وہ باہر نکلیں گی تو یہ سب کچھ ہو گا۔ ایک صدی سے بھی پہلے کی بات ہے جب ایک بنگالی خاتون نے لکھا تھا کہ اگر کوئی درندہ شہر میں گھس آتا ہے تو آپ اسے پکڑ کر چڑیا گھر میں بند کر دیں گے یا گولی مار دیں گے یا پھر آپ شہریوں کو کہیں گے کہ وہ گھروں میں بند ہو جائیں کیونکہ باہر درندہ گھوم رہا ہے؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2