شرح ِ تبدیلی


موجودہ سیاسی حالات میں تبدیلی کی بابت ہر شخص اپنی رائے رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ دیکھا جائے تو سالِ رواں میں تبدیلی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اولین تبدیلی تو یہ آئی کہ پچھلی سرکار، موجودہ سرکارِ میں بدل گئی۔ حکمران، وزیر، محکمے، نعرے اور تنخواہیں سب بدل گئے۔ پچھلا برس 2018 ء تھا جو بدل کر 2019 ء ہوچکا ہے اور آنے والا سال 2020 ء ہوگا۔ غیر مقبول اور نا پسندیدہ لوگوں کی جگہ انقلابی اور مخلص لوگ انصرامِ ریاست سنبھال چکے ہیں۔

باسٹھ اور تریسٹھ پوری کاملیت سے لاگو ہو چکا اور تخت و تختے کی تبدیلیاں جاری ہیں۔ بھینسوں سے وزیر اعظم ہاؤس کو وا گزار کروا کر یونیورسٹی میں تبدیل کیا گیا۔ چند دنوں بعد مہمانوں کی آمد پہ یونیورسٹی مہمان خانہ میں بدلی۔ یوں پی ایم ہاؤس اور جامعہ میں تبدیلی کی آنکھ مچولی کو اک ثبات حاصل ہو چکا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی شہ خرچیوں اور حماقتوں کی شرح اور نوعیت میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ پی ایس ایل اور بیرونی قرضہ جات پہ موقف میں تبدیلی واضح ہے۔

بھارت کے ساتھ قیام ِ امن کی کوششیں ماضی میں غداری کے مترادف تھیں جو تبدیلی کا شکار ہو کر دانشمندی کہلا رہی ہیں۔ اقبال کا مومن تو رزم حق و باطل میں فولاد ہوا کرتا تھا مگر اب بدل کر بریشم کی طرح نرم اور حلقہ یاراں میں فولاد کا کردار ادا کررہا ہے۔ پیرونی قرضوں کے رذائل ان کے فضائل میں بدلنے جارہے ہیں۔ غیر ملکی دوروں کی کثرت اور مہانوں کی آمد پہ بے جا پروٹوکول کبھی کلنک کے ٹیکے سمجھے جاتے تھے مگر انہیں تبدیلی اب ماتھے کا جھومر ثابت کرنے کے درپے ہے۔

مراعات اور تنخواہوں کے ضمن میں تو تبدیلیوں کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں۔ دھرنے اور احتجاج بھی بدلاؤ کی بدولت سکڑتے جارہے ہیں۔ ایک طرف ایک درجہ چہارم کا ملازم ترقیاتی تبدیلی کے ذریعے وزیر بنا تو دوسری طرف سڑک پہ گھسیٹنے کی اصطلاح آنکھوں پہ بٹھانے میں بدل رہی ہے۔ مجازی خداؤں کو بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔ تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر ڈالر پہ ہوا ہے جو لگاتار ترتیب ِصعودی سے تبدیلی کا شکار ہے۔ مہنگائی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی تبدیلی کی مظہر ہے۔

معیشت کا بیانیہ بھی ملت بیضا اور مرغبانی میں تبدیل ہوا جو مرغیوں کے فقدان کے باعث بدل کر اگلے برس جا پڑا ہے۔ دو سو ارب روپے پاکستان واپس لانے کے منصوبے کو بھی تبدیلی لاحق ہوئی اور دو سو ”ارب“ کی بجائے دو سو ”عرب“ کو اسلام آباد لایا گیا۔ تبدیلی کے بیا نیے کی معراج یو ٹرن کی جاندار اصطلاح تھی جسے اب اخلاقی و روحانی جواز حاصل ہے۔ اس سے بڑھ کر تبدیلی اور کیا ہوگی کہ تبدیلی خود بدل کر تبدیلی کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).