مجبوری


بامِ عالم پر دماغِ ابلہ کی جولانیاں
ورنہ کیا ہیں، اک بُزِاخفش کی کارستانیاں
ہر فضیلت کا ستارہ جیب میں بھرنے کا شوق
دانش و تہذیب کے سرّنہاں کا پاسباں
عقل کے جوہر کی سب باریکیوں کا رازدار
سب فرومایہ ہیں، عالی ذات میرا راہوار
بام عالم تک دماغ ابلہ کی پرواز آساں ہی تو ہے
کہتے ہیں، سب دیدہ و نادیدہ سیاروں کی پیدائش اور افزائش
کی سب درجہ بہ درجہ منزلوں کا علم ورثے میں ملا تھا ان کو
اوراق کہن کے ماہ پاروں میں
صحیفوں کی مقدس سرزمیں کی رہ گزاروں میں
زمیں ……..ہماری یہ زمیں سب سے بڑی سیاح ہے
گردش میں رہتی ہے
ہمیں معلوم تھا، سورج کی گردش بس نگاہ خام کا ادنیٰ کرشمہ ہے
یہ بد باطن حریفان جفاپیشہ کا کہنا ہے
کہ ہم تاریکیوں کی مملکت کاا سم اعظم جپتے رہتے ہیں
ہمیں خوں ریزیوں کاشوق دم لینے نہیں دیتا
حقیقت اس کے آگے کچھ نہیں، سُنیے
ہمارے سب عقیدے محترم، رسمیں مقدس ہیں
وہ گھٹیا خون رکھتے ہیں، عقیدے پست ہیں جن کے
وہ ذلت کے سفر میں ہیں
انہیں پستی سے ہم کو عالمِ بالا میں لانا ہے
ہمیں تو قادرِ مطلق کا فرماں پورا کرنا ہے
جو راہ حق کا مُنکر ہے،لہو اس کا بہانا ہے
یہ مجبوری ہماری ہے
جو مختار اور مطلق ہے، جو بینا اور دانا ہے
کوئی تو مصلحت ہے، ہم سے بھی کچھ کام لیتا ہے
ہم اس کے دست شفقت کی گھنی چھاؤں میں رہتے ہیں
ثواب بے کراں بھی لوٹتے ہیں، عیش کرتے ہیں
یہ مجبوری ہزاروں رحمتوں کا پیش خیمہ ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).