گردوارہ چوآ صاحب اور قلعۂ روہتاس کی آوارگی


وہ ہفتے کا دن تھا، جب راجپوتوں کے سپوت نے اپنے دوستوں کی فوج کے ہمراہ شیر شاہ سوری کے قلعۂ روہتاس پر یلغار کر دی۔ پہلے میں دریائے راوی اور چناب کو عبور کرتا ہوا بذریعہ جرنیلی سڑک گجرات پہنچا۔ گجرات سے فہیم کو ساتھ ملایا اور مزید کمک کے لئے انسپکٹر اظہر مجید کو جہلم سے طلب کیا۔ فوج اپنے مکمل سازوسامان کے ساتھ دریائے جہلم کے کنارے پہنچی۔ یہ وہی دریائے جہلم ہے جسے عبور کرنا سکندراعظم کے لئے دوبھر ہو گیا تھا اور ایک دفعہ تو اسے راجہ پورس نے ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ خیر مکاں بے شک وہی تھا لیکن زماں بدل چکا تھا۔ لہٰذا فوج نے منٹوں میں دریا عبور کیا اور تقریباً 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے دینہ شہر سے پہلے ایک چوک نما مقام پر پہنچی۔ وہاں سے بائیں ہاتھ قلعہ روہتاس کو جانے والی راہ پر چڑھ دوڑی۔

قلعۂ روہتاس میں داخل ہونے سے پہلے گردوارہ چوآ صاحب حاضری دینا ضروری تھا۔ آپ اسے میری دقیا نوسیت سمجھیں یا مذاہب سے محبت، میں جہاں کہیں بھی جاؤں اور جس بھی مذہب کی کوئی بھی جگہ نظر آ جے وہاں حاضری ضرور دیتا ہوں۔ گردوارہ چوآ صاحب ایک تاریخی جگہ ہے جو قلعہ روہتاس کے کابلی دروازے سے باہر گھان ندی کے کنارے ہے۔ کہتے ہیں جب بابا گرو نانک ٹلہ جوگیاں سے چل کے یہاں آئے تو اس وقت یہ جگہ سنسان تھی اور یہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔

بابا گرو نانک نے اپنی چھڑی سے یہاں ایک چشمہ نکالا۔ پانی کے چشمے کو ”چوآ“ کہا جاتا ہے۔ اس لیے اس کا نام چوآ صاحب مشہور ہوگیا۔ بعد میں شیر شاہ سوری نے یہاں اپنا ایک وسیع قلعہ بنوایا جو قلعہ روہتاس کے نام سے مشہور ہوا۔ قلعہ روہتاس کے بنتے وقت چوآ صاحب کی جگہ قلعے سے باہر والی سمت میں آ گئی جو اب کابلی دروازے کے باہر ہے۔ قلعے کے لوگ اس چشمے سے ہی پانی استعمال کرنے کے لیے لے جاتے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم سے 1834 ء میں موجودہ عمارت بنوائی گئی جو بہت خوبصورت تھی۔ اس کی ایک طرف گھان ندی اور دوسری طرف قلعہ ہے باقی دو طرف جنگل ہے۔ یہاں آنے کے لیے قلعہ روہتاس کے اندر بھی ایک راہ ہے۔ ہر سال 15 کتک شدی کو یہاں میلہ لگتا ہے۔

چوآ صاحب کے مقدس پانی سے ہاتھ اورمنہ  دھونے کے بعد جب ہم قلعے پہنچے تو بعض ہرنیاں سہمی ہوئی تھیں، جبکہ چیتیاں اپنی موج میں دوڑتی پھر رہی تھیں، کیونکہ انہیں دندناتے پھنپھناتے بھیڑیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ یہ کوئی نیا یا آج کا مسئلہ نہیں۔ لڑکیاں تاڑنے اور انہیں تنگ کرنے کا یہ سلسلہ تو سالہاسال سے چلتا آ رہا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی تو نہیں کہ یونہی چلتا رہے۔ ایسے ہی کچھ چھچھورے راہ چلتی خواتین کے پاس پہنچ کر زور سے گاڑی کی بریک لگاتے اور خواتین کو ڈرانے کی کوشش کرتے۔ اب ہرنیاں بیچاری ڈریں نہ تو اور کیا کریں۔ اب ہر کوئی چیتی تو نہیں ہوتی۔

سب سے پہلے قلعہ روہتاس کا سرسری سا جائزہ لاتے ہیں۔ قلعہ روہتاس 948 ہ میں مکمل ہوا، جو سطح مرتفع پوٹھوہار اور کوہستانِ نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے تعمیر کرایا تھا۔ گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد دیتے تھے، جو شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھا۔

جب یہ قلعہ کسی حد تک مکمل ہوگیا تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے۔ اس قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک گزرتی تھی، جو اب یہاں سے پانچ کلومیٹر دور جا چکی ہے۔ دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیو ہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔

ان روایات کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جبکہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔ قلعے کے بارہ دروازے ہیں، جن کی تعمیر جنگی حکمت علمی کو مدنظر رکھ کر کی گئی تھی۔ قلعہ روہتاس کا سب سے قابلِ دید، عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے۔ اس پر 68 برج، 184 برجیاں، 6881 کگرے اور 8556 سیڑھیاں ہیں، جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں۔

اس کے برج صرف فصیل کی خوب صورتی ہی میں اضافہ نہیں کرتے بلکہ یہ قلعے کے مضبوط ترین دفاعی حصار میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ قلعے کے اندر شاہی مسجد، حویلی مان سنگھ، رانی محل، تالاب، کنوئیں، پھانسی گھاٹ، عجائب گھر اور ایک لنگر خانہ بھی ہے۔ یہ قلعہ اپنی طرزِ تعمیر کی بدولت اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل مقامات میں سے ایک ہے۔

آئیے اب آوارہ گردی کا ذرا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں

یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ قلعے کی عمارتوں میں سے ایک عمارت کو شاہی مسجد کہا جاتا ہے اور چند باؤلیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ بعد ازاں ایک حویلی تعمیر کی گئی، جسے راجا مان سنگھ نے بنوایا تھا۔ محلات کے نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ اس قلعے میں آ کر خیموں میں رہا کرتے تھے۔ یہ قلعہ صرف دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا، اس لیے شیر شاہ سوری کے بعد بھی بر سر اقتدار آنے والوں نے اپنے ٹھہرنے کے لیے یہاں کسی پر تعیش رہائش گاہ کا اہتمام نہیں کیا۔

خیر ہم قلعے میں پہنچے تو سب سے پہلے باؤلی یعنی ”سیڑھیوں والے کنویں“ کی طرف گئے۔ بڑی باؤلی میں آج بھی پانی موجود ہے، تاہم اب اسے استعمال نہیں کیا جاتا۔ موری گیٹ کے قریب واقع یہ باؤلی 270 فٹ گہری ہے اور اس میں اترنے کے لیے 300 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں، جو آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں۔ اس کی چار محرابیں ہیں، جو 40 فٹ چوڑی ہیں۔ ہر دس پندرہ سیڑھیوں کے بعد ایک وسیع سیڑھی چوڑائی میں بنی ہوئی ہے، تاکہ پانی لانے والے آرام کر سکیں۔ تالاب باؤلی اور اس کے اردگرد تھوڑی بہت فوٹوگرافی کے بعد ہم فصیل پر چڑھ دوڑے۔

قلعے کی مغربی فصیل پر چڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ نیچے ایک دروازے میں رنگ برنگے ملبوسات والی ماڈلز کا فوٹوشوٹ ہو رہا ہے۔ دل پر پتھر رکھ کر اس شوٹنگ کو نظرانداز کیا اور اپنی موج میں چلتے ایسی جگہ پہنچے کہ وہ قلعے کی جیل لگ رہی تھی۔ ہم سے رہا نہ گیا اور فہیم صاحب کو جیل میں بند کر کے ان کا فوٹوشوٹ کیا۔ تصویریں بنانے کے بعد جب انہیں جیل سے باہر نکالا تو وہ خوش ہونے کی بجائے الٹا غصے میں کہنے لگے ”مجھے کیوں نکالا“۔

جیل کاٹ کر تو میں نے اچھا بھلا لیڈر بن جانا تھا۔ اپنی رہائی کا بدلہ لینے کے لئے وہ مجھے اور اظہر مجید کو پھانسی گھاٹ پر لے گئے۔ وہاں بنی ہماری تصویر سے تو یہی لگے گا کہ ہم معافی مانگ اور آئندہ کے لئے توبہ کر رہے ہیں، حالانکہ ہم نے تو کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی تھیں تاکہ ”مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا“ نہ سننا پڑے۔

شاہی مسجد چھوٹی لیکن خوب صورت مسجد ہے۔ یہ مسجد کابلی دروازے کے نزدیک واقع ہے اور اسی وجہ سے کابلی دروازے کو بادشاہی دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد صرف ایک کمرے اور صحن پر مشتمل ہے۔ اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مرکزی ہال کی اندرونی چھت مسطح ہے، البتہ اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باہر کوئی مینار یا گنبد نہیں۔ بیرونی دفاعی دیوار اس کی پشت پر واقع ہے۔ یہ مسجد سوری عہد کی چند انمول اور قابل دید تعمیرات میں سے ایک ہے۔

بہرحال صلح صفائی ہو گئی اور ہم فہیم صاحب کو مان دینے کے لئے حویلی مان سنگھ لے گئے۔ مان سنگھ تو نہ ملا البتہ فہیم صاحب نے بڑے پوز بنا بنا کر تصویریں بنوائی نہیں بلکہ بنائیں۔ حویلی مان سنگھ مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے وفادار جرنیل راجا مان سنگھ کے نام سے موسوم ہے، جس کا انتقال 1614 ء میں ہوا۔ یہ محل قلعہ روہتاس کی سب سے بلند ترین چٹان پر تعمیر ہوا اور اس کا طرز تعمیر کافی حد تک عربی، ایرانی اور افغانی کی بجائے ہندوانہ تھا۔ بلندی پر تعمیر ہونے والا یہ محل سفید رنگ کا تھا۔ اکبر اعظم نے اس گنبد نما محل کو مزید خوب صورتی بخشنے کے لیے اس کے اردگرد مزید عمارات بھی تعمیر کرائی تھیں۔ اس کی چھتوں، دروازوں اور جھروکوں وغیرہ میں آج تک نفیس نقش و نگار اور پچی کاری موجود ہے۔

رانی محل حویلی مان سنگھ سے تین سو گز کے فاصلے پر شمال کی جانب موجود ہے۔ اس میں راجا مان سنگھ کی بیوہ بہن شریمتی روپ کماری رہتی تھی۔ یہ محل چونکہ اپنا اصل رنگ و روپ کھو چکا ہے اس لیے لوگ اب اسے کالا محل کہتے ہیں۔ اسے بھربھرے پتھر سے ایک مینار کی صورت میں بنایا گیا تھا، جس کی بلندی 80 فٹ ہے۔ اس محل کی مغربی جانب ایک کھلا پلیٹ فارم ہے جو درحقیقت زیر زمین کمرے کی چھت ہے۔ محل میں پہرے داروں کے کمرے اور دونوں محلوں کا ملانے کے لیے راستہ بنایا گیا تھا۔

قلعے کے جنوبی حصے میں شہر کے لیے پانی جمع کرنے کی غرض سے ایک شاہی تالاب بھی بنایا گیا تھا، جس کے وسط میں مرکزی چٹان پر عیدگاہ تعمیر کی گئی تھی۔ عہد سوری میں لوگ عیدگاہ تک جانے کے لیے کشتیاں استعمال کرتے تھے۔ عید گاہ تک پہنچنے کے لیے ایک خفیہ راستہ بھی موجود تھا، جو سکھوں کے عہد میں کھول دیا گیا اور لوگ سوہل دروازے کے راستے عیدگاہ تک جانے لگے۔

لنگرخانہ تکیہ خیر النساء قلعہ کی حدود سے باہر شمال کی جانب بنی ہوئی ایک چھوٹی سی عمارت ہے۔ یہ درحقیقت خیر النساء کا مقبرہ ہے، جو شیر شاہ سوری کے وزیر خوراک کی بیٹی تھی۔ خیر النساء اپنے وقت کی شہرت یافتہ بہادر فوجی عورت تھی۔ اس نے شیر شاہ سوری کے ہمراہ چونسہ اور قنوج کی لڑائیوں میں حصہ بھی لیا تھا۔

قلعہ روہتاس دیکھنے والوں کو ایک بے ترتیب سا تعمیری ڈھانچا نظر آتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے اسے تعمیر کرتے ہوئے نقش نگاری اور خوب صورتی کے تصور کو فراموش نہیں کیا تھا۔ قلعے کے دروازے اور بادشاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری اس کا واضح ثبوت ہے۔ ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان قوسین قلعے میں جابجا دکھائی دیتی ہیں، جن کی بہترین مثال سوہل گیٹ ہے۔ اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مرمر کی سلوں پر کندہ مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں، جو خط نسخ میں تحریر کیے گئے ہیں۔ خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں، جن میں سے ایک پر قل شریف اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں۔ شیشی دروازے پر نصب سلیب پر فارسی میں قلعے کی تعمیر کا سال 948 ہ کندہ کیا گیا ہے۔

قلعہ روہتاس کی تباہی کا آغاز اس دن ہوا جب ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر ایران چلا گیا تھا اور جب دوبارہ شہنشاہ ہندوستان بن کر اس قلعے میں داخل ہوا۔ وہ اس عظیم قلعے کو دیکھ کر دنگ رہ گیا اور جب اسے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ تو اس کے دشمن شیر شاہ نے بنوایا تھا تو اس نے غصے کی حالت میں اسے مسمار کا حکم دیا۔ بادشاہ کے معتمد خاص بیرم خاں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ اب یہ اسلامی ورثہ ہے اور اس پر قوم کا کافی پیسہ خرچ ہوا ہے، اس لیے اسے مسمار نہ کیا جائے۔

ہاں اپنے حکم کی شان برقرار رکھنے کی خاطر اس کا کچھ حصہ گرا دیں۔ چنانچہ سوہل دروازے کے پانچ کنگرے گرا دیے گئے، جو بعد میں دوبارہ تعمیر کرائے گئے۔ قلعے کی اصل تباہی سکھوں کے ہاتھوں ہوئی، جو شاہی عمارات کے اندر سے قیمتی پتھر اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ بھی طویل عرصے یہاں مقیم رہا، تاہم قعلے کے بنیادی ڈھانچے اور عمارتوں کو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

شام ہونے والی تھی اور دل تھا کہ ٹلہ جوگیاں کے اُس پار غروب ہونے والے سورج کی فوٹوگرافی کی جائے، لیکن آسمان نے گھونگٹ اور بادلوں کا نقاب مسلسل اوڑھے رکھا۔ ایسی صورتحال میں غروب آفتاب کا خوبصورت پہاڑی منظر پکڑ میں نہیں آتا۔ لہٰذا پھر کبھی سہی کہتے ہوئے لوٹ کر بدھو لاہور کو آئے۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya