کامران اکمل کو ورلڈ کپ 2019 ٹیم میں لے لیا جائے


آئیں مِڈ جنوری 2019 میں چلتے ہیں۔

ناظرین پاکستان جنوبی افریقہ سے ٹیسٹ سیریز 3۔ 0 سے ہارگیا۔ جیسا کہ اکثر ہمارے میڈیا و عوام کو ایک آدھ مرغا فوراً پکڑنا ہوتا ہے جس کی قربانی چڑھا کر شکست کا رونا رو لیا جائے۔ قربانی کیا وہی دیسی جملے بازیوں کی صورت میں کسی پیشہ ور کے ذاتی معاملات کو ادھیڑ دینا۔ امام الحق کی سب سے بڑی ذاتی کمزوری ان کا انضمام الحق کا بھتیجا ہونا ہے، جو کب سے عوام کے ہاتھ لگی ہوئی ہے۔ کسی پیشہ ور کے رشتہ دار کا اسی فیلڈ میں قدم رکھنا کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔

پاکستان آرمی میں اکثر افسران اور جوانوں کے سپوتوں کے آئی۔ ایس۔ ایس۔ بی کلئیر کرنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کلچر میں پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ بزنس مین کا بیٹا بزنس مین۔ ایکٹر کا بیٹا یا بیٹی ایکٹر۔ کرکٹر کا بھتیجا کرکٹر۔ ناظرین ٹیسٹ سیریز کے فوری بعد اور ون ڈے سیریز سے قبل: امام الحق کو باہر کرو، پرچی کو باہر کرو، کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔

میری امام کے لئے حمایت اب تک ایک روزہ فارمیٹ پر موقوف ہے۔ وہ ایک اچھا بیٹسمین ہے، گو کچھ خامیاں ہیں جیسا کہ باڈی لینگوئج میں وہ پھرتی نہیں جو ایک 23 سالہ نوجوان میں ہونی چاہیے۔ لیکن اکثر اس طرح کی عینک پہننے والے بچے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں، نہیں؟ اپنے بچپن کے کسی شدید پڑھاکو کلاس فیلو کو یاد کریں۔ اتنا یقین رکھا جا سکتا ہے کہ نہ تو انضمام کوئی کم ظرف شخص ہے کہ خواہ مخواہ بھتیجے کی سفارش کرے، اور نہ ہی امام اتنا فارغ بیٹسمین کہ اپنے میرٹ پر سلیکٹ نہ ہو پائے۔ اتنا بتا دوں کہ تکنیکی طور پر وہ فخر زمان سے بہتر بیٹسمین ہے۔

ناظرین جنوری 2019 اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

جنوبی افریقہ ون ڈے سیریز میں امام الحق مین آف دی سیریز قرار۔ لوگ اب تھوڑا چرچا کریں کہ کھلاڑی اچھا ہی ہے۔ میں کہوں کہ پاکستان کو ورلڈ کپ میں اس کے ساتھ کا اوپنر ایسا چاہیے جو سٹروک میکر اور تیز کھیلنے والا ہو، میری نظر نہ جانے کیوں کامران اکمل پر ٹھہر رہی ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ پی۔ ایس۔ ایل سیزن فور میں کیسی پرفارمنس دیتا ہے۔

17 مارچ 2019۔

ناظرین پی۔ ایس۔ ایل شاندار کامیابی پر اختتام کو پہنچی۔ کامران اکمل تین نصف سنچریوں کے ساتھ ٹورنامنٹ کے دوسرے بڑے سکورر ٹھہرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر ایلیمنیٹر۔ 2 میں اسلام آباد یونائیٹد کے خلاف وہ امام الحق کے ساتھ 135 رنز کی افتتاحی شراکت دے کر ساتھ اُس خاکے میں رنگ بھرتے ہیں جو میں نے جنوری 2019 میں کھینچا تھا۔

ورلڈ کپ کے پندرہ رکنی سکواڈ میں لازمی طور پر تین اوپنر سلیکٹ ہوتے ہیں۔ اگر تو انضمام الحق یہ طے کر چکے ہیں کہ امام الحق اور فخر زمان ورلڈ کپ میں جارہے ہیں، جیسا کہ ان کا کم از کم پچھلے چھ ماہ کا سلیکشن کارڈ بتا رہا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ورلڈ کپ سکواڈ پلیننگ کے آخری مرحلے سے گزر رہا ہے، تو یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ تیسرا اوپنر کون ہوگا۔ میرے نزدیک کامران اکمل ایک بہترین چوائس ہوسکتے ہیں۔ کامران اکمل جہاں دیدہ کھلاڑی ہیں، یہ ان کا آخری ورلڈ کپ ثابت ہوگا، اور اگر وہ بغیر وکٹ کیپنگ و نائب کپتانی کے پریشر کے کھیلیں گے تو یقیناً ان سے بڑی امید رکھنا آسان ہوگا۔

ورلڈ کپ سکواڈ ویسے بھی سینئیرز جونئیرز کا مکس ہوا کرتا ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہ شعیب ملک بھی تو بطور سینئیر موجود ہیں۔ تو میری ساتھ ہی سن لیجئیے، مجھے ہمیشہ کی طرح ان سے کچھ خاص امید نہیں۔ بیٹنگ فرینڈلی پچز پر منعقدہ پی۔ ایس۔ ایل میں آپ ان کی کارکردگی دیکھ چکے۔ ورلڈ کپ میں ان کو جانے سے تو کوئی نہیں روک سکتا۔ لہٰذا اگر بیس سال سے انٹرنیشنل کھیلتے شعیب پرفارم کرجائیں تو ہم شکر بجا لائیں گے۔ کامران اکمل کو آسٹریلیا ون ڈے سیریز میں تو نہیں لیا گیا، اس سے اگلی انگلینڈ میں ہونے والی سیریز میں لے پرکھ لیا جائے۔ ڈئیر پی۔ سی۔ بی سلیکشن کمیٹی دیکھ لینا کہیں دیر نہ ہوجائے۔ اکیلے فخر زمان پر نا رہنا۔ ہر دن چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نہیں ہوا کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).