خلافت عثمانیہ مذہبی حکومت تھی یا سیکولر؟


سلطان عبدالمجید اور فرمان گل خانے

ان اصلاحات کے خلاف یینی چیری نے بغاوت کر دی اور محمود پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں محمود بچ گیا۔ سلطان کی فوج نے جو بہتر رائفلوں سے مسلح تھی، یینی چیری دستوں کی بغاوت کو کچل دینے کے بعد فوج سے یینی چیری کو خارج کر دیا۔ اصلاحات کا عمل سلطان محمود کی وفات اس کے بیٹے سلطان عبدالمجید دوم نے جاری رکھا۔ تنظیمات اصلاحات کے سلسلہ میں 1856 ء کا سال بہت اہم ہے۔ سلطان عبدالمجید دوم نے اپنے دستخط سے شاہی فرمان جاری کیا، جسے خطِ شریف، خط ِہمایوں ( شاہی خط) فرمانِ گل خانے اور فرمانِ تنظیمات جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ان اصلاحات کو فرمانِ گل خانے کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان اصلاحات کا اعلان گل خانے نامی محل میں کیا گیا تھا۔ ترکی میں گل خانے کا مطلب گلابوں کا گھر ہے۔ فرمانِ گل خانے کی اہم دفعات یوں تھیں۔

ا: تمام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ

ب: ایک نئے ضابطہ قانون کا اجرا جس کے تحت مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی قانون کے سامنے یکساں حیثیت۔

ج: ٹیکس کے ایک نئے نظام کا نفاذ۔

د: شہریوں کو بری و بحری فوج میں بھرتی کرنے کے لئے ایک منصفانہ نظام کا نفاذ

ر: تمام مردوں کے لئے چار سالہ لازمی فوجی ملازمت

فرمان گل خانے کا اصل خالق مصطفیٰ رشید پاشا تھا جو فرانس اور برطانیہ میں ترکی کا سفیر رہ چکنے کے علاوہ سلطنت کا صدر اعظم بھی تھا۔ فرمان گل خانے سے فوجی بھرتی کے لئے سلطان مراد اوّل کے چودہویں صدی میں شروع کردہ دیوشیرمے طریقہ کار خاتمہ کر دیا گیا جس کے تحت بلقان اور ایشائے کوچک کے علاقوں سے کمسن عیسائی اور یہودی بچوں کو سلطنت کی تحویل میں لیا جاتا تھا اور انہیں اسلام قبول کروا نے کے فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا، یہ وہ پیادہ فوج تھی جنہیں ترکی زبان میں ینی چری اور انگریزی میں جانیثری کہا جاتا ہے۔

ترکی کا عدالتی نظام فرانسیسی طرز پر بنایا گیا۔ جس میں بنیادی عدالت اور اعلیٰ عدالت تھی، جہاں اپیل کا حق بھی موجود تھا۔ تمام شہریوں کے فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے پچھلے پانچ سو سال سے رائج شرعی نظام کو خاتمہ کر دیا گیا، اور اس سلسلہ میں اجتہاد کے لئے سلطنت کے شیخ الاسلام سید وہاب آفندی اور مصطفیٰ عاصم کی مدد لی گئی۔ فرمانِ گل خانے سے مختلف نسلی گروہوں میں ”عثمانیت“ اجاگر کرنے کی خاطر نسل و مذہب سے بالاتر ہو کر خلافت کے ہر باشندے کو برابری کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا۔ جس سے عیسائی، یہودی اور دیگر اقلیتوں کو بھی برابری کے حقوق عطا کیے گئے۔ ذمی کا تصور مٹاتے ہوئے تمام شہریوں کی حثیت برابر قرار دی گئی۔ غیر مسلموں سے جزیہ کی وصولی ختم کر کے کر ان کا درجہ مسلمانوں کے برابر کر کے انہیں فوج میں بھرتی کے یکساں مواقع مہیا کیے گئے۔

لیکن اس فرمان کا وہ حصہ زیادہ دلچسپ ہے جس کے مطابق 1858 ء میں ہم جنس پرستی جرم کی فہرست میں شامل نہ رہی۔ شرعی سزاؤں کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ زنا کی سزا سنگساری پہلے ہی ختم ہو چکی تھی۔ اسی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کے پورے دور میں سنگساری کا واحد واقعہ 1680 ء میں پیش آنے کا ذکر ملتا ہے۔ 1844 میں ہی ارتداد کی سزا موت کا خاتمہ کر دیا جا چکا تھا، اسی وجہ سے بہائی مذہب کے بانی بہا اللہ نے جب پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا اور پیغمبر اسلام اور قران کی تعلیمات کا مزید سودمند نہ رہنے کا بیان دیا، تو اسے قتل کرنے کی بجائے عمر قید دی گئی تھی۔

مصطفی رشید پاشا

اس فرمان کے نتیجے میں غیر مسلموں کی جبری مذہبی تبدیلی کو روکنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس سے پہلے ترکوں کے نزدیک مذہبی آزادی سے مراد ان کے اپنے مذہب اسلام کا دفاع تھی۔ عثمانی دورحکومت میں شرعی قوانین جزیرہ نما عرب میں بھی نافذ نہ تھے، یہ قوانین حجاز سے ترکی کے انخلا اور اس کی جگہ لینے والے شریف مکہ کی شکست کے بعد بعد سعودی حکومت نے نافذ کیے۔ اگر چہ شرعی عدالتیں بھی موجود رہیں لیکن ان کا دائرہ کار صرف شہروں تک ہی محدود تھا، اور وہ واحد عدالتیں نہیں تھیں۔ دیہات کا اپنا نظام تھا اور غیر مسلم ملت نظام کے تحت اپنے مذہبی اور معاشرتی قوانین کے تحت فیصلے کرتے تھے۔

تنظیمات اصلاحات کے سلسلہ میں سلطان عبدالمجید دوم، مصطفیٰ رشید پاشا، سلطان عبدالعزیز کے علاوہ علی پاشا اور فواد پاشا کا نام سر فہرست ہے۔ اگر چہ تنظیمات اصلاحات اتنی زیادہ کامیاب نہ ہوئیں جتنی عثمانی سلاطین کو امید تھی، لیکن یہ پھر بھی غیر مسلموں اور تعلیمی نظام کی حالت بہتر کرنے میں کامیاب ہوئی، کہا جاتا ہے کہ اگر عثمانی خلافت برقرار رہتی اور مصطفیٰ کمال پاشا کے ہاتھوں اس کا خاتمہ نہ بھی ہوتا تو پھر بھی ترکی معاشرہ اپنا ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے آج اتنا ہی سیکولر ہوتا جتنا کہ اب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2