کمرہ عدالت نمبر 1 سے : نوازشریف کی درخواست ضمانت


ساڑھے نو بجے سے پہلے ہی عدالت عظمی کا کمرہ نمبر 1 بھر چکا تھا، زیادہ تعداد ن لیگی رہنماوں کی تھی، پہلی قطار میں راجہ ظفر الحق اور اقبال ظفر جھگڑا بیٹھے تھے، دوسری قطار میں امیر مقام، طاہرہ اورنگزیب کے ساتھ بیٹھے تھے، جن کے عین پیچھے مریم اورنگزیب تشریف فرما تھیں، مریم اورنگزیب کے بائیں جانب پرویز رشید، دایئں جانب مرتضی جاوید عباسی، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق اور سینیٹر سلیم ضیا بیٹھے تھے۔

ہال کے انتہائی بائیں جانب کی آخری تین قطاروں میں خواجہ آصف، رانا تنویر، مائزہ حمید اور خرم دستگیر کو جگہ ملی جبکہ انتہائی دایئں جانب کے حصے میں رانا ثنا اللہ براجمان تھے۔ طارق فضل چودھری پہنچے تو بیٹھنے کی جگہ نہ تھی، وہ مرتضی عباسی کی کرسی کے بازو پر ہی بیٹھنے لگے تو ایک کارکن نے اشارے سے پیچھے بلا کر اپنی کرسی پیش کر دی، حمزہ شہباز سب سے آخر میں عدالت شروع ہو جانے کے بعد پہنچے، سب سے اگلی قطار میں ان کے لیے ایک کارکن کو بٹھا کر پہلے ہی کرسی پر قبضہ جمایا جا چکا تھا، ان کے لیے جگہ فورا چھوڑ دی گئی اور وہ صاحبزادوں کی طرح بڑی ادا سے چلتے ہوئے اپنی نشست پر براجمان ہوئے اور کیوں نہ ہوتے آخر صاحبزادے ہی تو ہیں۔

پہلے تین کیسز چونکہ ن لیگ سے متعلقہ نہ تھے اس لیے یہ وقت سب نے بڑی بیزاری سے گزارا، کچھ راہنما تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہے، کچھ آنکھیں ملتے رہے، کچھ باقاعدہ اونگھتے رہے، اور ایک خاتون راہنما نے تو اگلی کرسی کی پشت پر سر رکھ کے نیند کے جھٹکوں کا مقابلہ کیا اور ایک سینیٹر صاحب تو باقاعدہ سو گئے۔

خیر ساڑھے دس بجے کے کچھ بعد جب پکارا گیا “میاں محمد نواز شریف بنام ریاست پاکستان”اور خواجہ حارث روسٹرم پہ آئے تو آٹھ دس وکلا کا ایک جتھہ بھی ان کے ساتھ آن کھڑا ہوا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا آپ سب تشریف رکھیے خواجہ صاحب کو آپ کی معاونت کی ضرورت نہیں پڑے گی، یوں سماعت کے اختتام تک خواجہ حارث اکیلے روسٹرم پر کھڑے رہے۔

سب سے پہلے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس دکھائیے، خواجہ حارث نے سات میڈیکل رپورٹس کا ذکر کیا اور پھر چیف جسٹس کے کہنے پر ایک ایک رپورٹ پڑھنا شروع کی۔ اے ایف آئی سی، آر آئی سی، پی آئی سی کے چار رکنی، چھ رکنی اور سات رکنی میڈیکل بورڈز کی سفارشات اور لیب ٹیسٹس کی رپورٹس سے آگاہ کیا۔ جسٹس کھوسہ، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس سجاد علی شاہ تمام رپورٹس کے نتائج نہایت تحمل سے سنتے رہے اور بیماری کو سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے پہلی درخواست واپس لے کر طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کی تو یقنا اس کی وجہ یہ ہو گی کہ نواز شریف کی طبعیت اچانک خراب ہونا شروع ہو گئی ہو گی۔ ہم دیکھنا یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بیماری کی ہسٹری تو پرانی ہے مگر 15 جنوری کے بعد ان کی رپورٹس ماضی کی رپورٹس سے کیسے مختلف ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف نے اسی میڈیکل ہسٹری کے ساتھ ہی ریلیز نکالیں، جلسے کیے، پوری الیکشن مہم چلائی، اب جیل جانے کے بعد کی رپورٹس ماضی کی رپورٹس سے کیسے مختلف ہیں؟

خواجہ حارث نے شوگر، بلڈپریشر، گردوں کی کارکردگی، خون کی گردش اور دل کی دھڑکن سمیت نواز شریف کی صحت کے دیگر پہلووں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ان کا دو مرتبہ بائی پاس ہو چکا ہے اور انہیں سات اسٹنٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو ایک ایسے ماحول میں علاج کی ضرورت ہے جہاں ہمہ وقت تمام ڈاکٹرز ان کی دیکھ بھال کر سکتے ہوں اور علاج کی سہولتیں موقع پر موجود ہوں جو جیل میں ممکن نہیں۔

یہاں چیف جسٹس نے کہا کہ اب اگلے مرحلے کی جانب آتے ہیں اور وہ ہے علاج کا مرحلہ۔ قانون کے مطابق اگر نواز شریف کا علاج جیل میں نہیں ہو سکتا تو انہیں کسی ہسپتال میں ریفر کیا جا سکتا ہے کیا ایسا نہیں ہوا؟ ایک سوال جسٹس یحییی آفریدی نے کیا، انہوں نے کہا کہ آپ اس ڈاکٹر کا نام بتائیں جس سے نواز شریف نے علاج کی خواہش ظاہر کی ہو اور انہیں وہ ڈاکٹر نہ ملے ہوں۔

خواجہ حارث کے پاس جواب نہ تھا، اس مرحلے پر خواجہ حارث نے کہا کہ سات رکنی میڈیکل بورڈ نے سفارش کی ہے کہ نواز شریف کو سٹریس فری ماحول میں رکھا جانا چاہیے، اور نواز شریف کے سٹریس فری ماحول تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب وہ ایک آزاد آدمی ہوں، قید میں رہتے ہوئے وہ سٹریس سے باہر نہیں آ سکتے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے ایک اور ایسا سوال کیا جہاں وہ دوبارہ کلین بولڈ ہو گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ضمانت اس لیے مانگ رہے ہیں کہ نواز شریف لندن میں جا کر اپنا علاج کرا سکیں تو کیا وہ ایسا کر سکیں گے یا ان کا نام ای سی ایل میں ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جی ان کا نام ای سی ایل میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا تو پھر اگر ضمانت مل بھی جائے تو وہ باہر تو جا نہیں سکتے تو پھر طبی بنیادوں پہ ضمانت دینے کا کیا فائدہ؟ ہسپتال تو وہ جیل میں ہوتے ہوئے بھی جا سکتے۔ خواجہ حارث “فری مین” اور “سٹریس فری” والی داستان دہرانے لگے۔

سماعت کے بیچ جب وقفہ آیا تو ن لیگ کے ایک بہت سینیر رہنما سابق وزیر اور موجودہ ایم این اے گھومتے پھرتے صحافیوں کی جانب آ گئے میں نے اپنے ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھنے کی دعوت دی تو فورا بیٹھ گئے، تب تک ابھی سماعت آدھی بھی نہ ہوئی تھی، میں نے پوچھا جناب کہیے کیا توقعات ہیں آج، کہنے لگے جسٹس کھوسہ سے ہمیں کیا توقعات ہو سکتی ہیں کہ جب وہ پاناما میں ہمارے خلاف اتنا سخت فیصلہ دے چکے ہیں، کہنے لگے ہم نے خواجہ حارث سے کہا بھی تھا کہ بنچ پر اعتراض اٹھانا چاہئے، لیکن پتہ نہیں خواجہ حارث کیا کر رہا ہے سمجھ سے باہر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ثاقب نثار کو ایسے ایسے الفاظ اور ایسے ایسے ارشادات فکر سے نوازا کہ سنتا جا شرماتا جا۔ یہ گفتگو تب تک جاری رہی جب ساڑھے گیارہ بجے سماعت دوبارہ نہ شروع ہو گئی۔

سماعت کے اختتام سے ذرا پہلے سب کو لگ رہا تھا کہ اپیل آج ہی اپنے منتقی انجام کو پہنچ جائے گی اور ابھی ن لیگی صفوں میں ماتم نظر آنے لگے گا لیکن نیب ۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).