خلافت عثمانیہ مذہبی حکومت تھی یا سیکولر؟


پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیراعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا تھا کہ جنگ میں انگریزوں کی فتح کی صورت میں نہ ہی مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی ہو گی اور نہ مسلمانوں کی خلافت کے ادارے کو چھیڑا جائے گا۔ لیکن جنگ جیتنے کے بعد انگریزوں نے اپنے تمام وعدے فراموش کر دیے۔ اس بدعہدی کے نتیجہ میں ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے اپنا وفد نہ صرف برطانیہ بھیجا بلکہ بہت شدت سے تحریک خلافت کا آغاز کر دیا۔

تحریک کے اہم ترین مقاصد یہ تھے، ترکی کی خلافت بحال رہے۔ مقامات مقدسہ ( مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ) ترکی کی تحویل میں رہیں۔ ترک سلطنت کو تقسیم نہ کیا جائے۔ تحریک خلافت بہت زور پکڑتی ہے، نتیجتاً تحریک کے اہم رہنما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جیل بھیج دیے جاتے ہیں، اور پھر ان کی ماں آبادی بانو بیگم سے منسوب نعرہ زبان زد عام ہو جاتا ہے۔ ”بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو“۔

تحریک کے کچھ علما ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر ہجرت کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہزاروں مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لیتے ہیں اور سب کچھ لٹا کر واپس آ جاتے ہے، تحریک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ شریف مکہ ترکی سے بغاوت کر کے حجاز کی حکومت قائم کرتا ہے، مصطفی کمال پاشا اتاترک موجودہ ترکی کے علاقے آزاد کروا کر جمہوریہ کے قیام اور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اور ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

ہم دیسی مسلمانوں کا خلافت کے لفظ سے سخت قسم کا رومانس اب بھی قائم و دائم ہے کیونکہ خلافت کے ساتھ وہ سچی یا جھوٹی کہانیاں وابستہ ہیں جن کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ تھے تو وہ رات کے وقت اناج کی بوری اپنی کمر پر اٹھائے بھوکے بچوں کی ایک ماں کو دے کر آئے۔ ان وقتوں میں مدینہ میں کوئی خیرات لینے والا نہیں ملتا تھا۔ دجلہ کے کنارے بھوک سے مرنے والا کتا بھی حضرت عمر کی ذمہ داری تھا۔ ہمیں یہ جاننے سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک انتہائی غریب ریگستانی علاقے میں ایک دم سے اس قدر خوشحالی کیسے آ گئی، ہمیں غرض ہے اس تو صرف اس بات سے کہ بس خلافت آئے جس سے ہمارے زندگی کے تمام مسائل حل ہو جائیں اور ہم دنیا کی تمام قوموں پر حاوی ہو جائیں۔ اور اسی وجہ سے ہم آج بھی خلافت کے خواب سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔

فرمان گل خانے کی خبر

خلافت عثمانیہ جسے ترکی میں دولت عثمانیہ کہا جاتا ہے یہ مسلمانوں کی چوتھی خلافت تھی۔ خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ اور خلافت بنو عباس اس کی پیشرو تھیں۔ عثمانی خلافت انسانی تاریخ کا طویل ترین سلسلہ حکومت ہے۔ ان کا دور حکومت چھ صدیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ اور اپنے عروج کے زمانے میں اس کا دائرہ اقتدار براعظم یورپ، ایشیا اور افریقہ تک پھیلا ہوا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد عثمان اول نے 1299 ء میں ڈالی، اس کا پہلا خلیفہ سلطان سلیم یاؤز  اور اس سلسلے کا آخری خلیفہ عبدالمجید دوم تھا جس کی خلافت 1924 ء میں ختم کر نے کے بعد اسے اپنے پیشرو خلیفہ محمد وحید الدین کی طرح جلا وطن کر دیا گیا۔

خلافت عثمانیہ کے متعلق عموماً یہ تاثر ہے کہ چونکہ یہ خلافت تھی اس لئے یہ شرعی اصولوں کے تحت حکومت کرتی تھی۔ جب کہ حقائق سے اس دعوے یا سوچ سے قطعی مختلف ہیں۔ عثمانی خلافت دینی کی بجائے ایک دنیاوی حکومت تھی جس کے لئے اسلام کی بجائے عثمانی سلطنت کی بقا زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے دولت عثمانیہ میں سترہویں صدی سے ہی سیکولر نوعیت کی اصلاحات کا آغاز ہو گیا تھا جن کا نقطہ عروج 1839 ء سے لے کر 1876 ء میں تنظیمات خیریہ نامی اصلاحات کی صورت میں نظر آیا۔ تنظیمات سے روایتی مذہبی قوانین کو یا تو ختم کر دیا گیا یا ان کو تبدیل کر کے سیکولر قوانین کو لاگو کیا گیا اور خلافت کے تمام باشندوں کو قانون کے سامنے یکساں حیثیت دی گئی۔

چھ صدیوں سے زائد عرصہ تک ایک کروڑ ترک 25 کروڑ لوگوں پر اس لئے حکومت کر پائے کہ انہوں نے اپنے مفتوحہ علاقے کے باشندوں کو ملت نامی انتظامی ڈھانچے کے تحت بہت زیادہ مذہبی آزادی دے رکھی تھی۔ ہر مذہبی گروہ کی اپنی آزاد عدالتیں تھیں جو ان کے اپنے مذہبی قوانین کے تحت فیصلے سناتی تھیں۔ یہ اسی مذہبی رواداری کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی یہودیوں سے صدا بہار نفرت کے باوجود جب یہودیوں کو ان کے عقائد کی وجہ سے سپین نے 1492 ء میں ملک بدر کیا تو بایزید دوم نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ ان کو ملک کے دوسرے شہریوں جیسے حقوق سے بھی نوازا۔

تنظیمات خیریہ 1839 سے 1886 کے درمیان ہونے والی سلسلہ وار اصلاحات کو کہتے ہیں جن کا بنیادی مقصد خلافت کی حالت بہتر بنانا تھی جو اپنے کئی مقبوضات سے ہاتھ دھونے کے علاوہ داخلی خلفشار کا بھی شکار تھی۔ اندرونی طور پر خاص الخاص پیادہ فوج کے ان دستوں کی خود سری اور من مانیاں عروج پر تھیں جنہیں تاریخ یینی چیری کے نام سے جانتی ہے۔

سلطان سلیم سوم نے نظام جدت کے نام سے جب ترک فوج کو یورپی خطوط پر تشکیل دینے کی کوشش کی۔ تو ا سے یینی چیری کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یینی چیری نے سلیم کو معزول کر کے اس کے بھائی مصطفیٰ کو تخت پر بٹھایا۔ لیکن سلیم کے ساتھیوں نے شدید جدوجہد کے بعد مصطفیٰ کو ہٹا کر سلیم کے بھتیجے محمود دوم کو تخت نشین کروایا۔ محمود نے اپنے چچا کی اصلاحات کو جاری رکھا اور روایتی قانون عثمانی کی بجائے یورپی قانون کا نفاذ شروع کر دیا۔

تنظیمات کے تحت 1840 ء میں کاغذی نوٹ جاری ہونے کے علاوہ ڈاکخانے کا قیام، معاشی نظام کی تنظیم نو اور شہری حقوق و جرائم کے قوانین مرتب کیے گئے۔ 1841 ء میں مجلس معارف امت کا قیام عمل میں آیا جو 1876 ء کی پہلی ترک پارلیمنٹ کی پیشرو تھی۔ 1843 ء میں باقاعدہ فوج رکھنے، بھرتی کا نظام اور مدت ملازمت طے پائیں۔ 1844 ء میں ترکی کا قومی ترانہ اور قومی جھنڈا تشکیل پانے کے علاوہ مردم شماری کی گئی جو صرف مردوں تک ہی محدود تھی۔

اسی سال شناختی کارڈ کا اجرا ہوا جسے مجیدیہ شناختی دستاویز کا نام دیا گیا۔ 1847 ء میں غلامی اور غلاموں کی خرید و فروخت ختم کر دی گئی۔ 1848 ء میں دارلافنون نام سے پہلی یونیورسٹی اور اساتذہ کی تربیت کے لئے دارلامعلمین قائم ہوا۔ 1851 ء میں انجمن دانش کے نام سائنس کی درسگاہ کا قیام عمل میں آیا۔ اسی سال شرکت خیریہ کے نام سے دخانی کشتیاں چلائی گئیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2