صدارتی ایوارڈ، مہوش حیات اور مستنصر حسین تارڑ


صاحبِ آواز دوست جب نو عمر تھے تو کہیں پڑھا کہ نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان جو کہ اس وقت دنیا کے امیر ترین شخص تھے کی ترکیِ ٹوپی پر گرد کی تہہ جمی رہتی ہے۔ یہ پڑھ کر مختار مسعود کے دل میں نظام کے خلاف ایسی گرد بیٹھی جو عمر بھر ختم نہ ہوئی

کچھ اسی طرح جب میں نو عمر تھا تو مستنصر حسین تارڑ جنہیں اردو کا نظام دکن کہا جا سکتا ہے “کیونکہ اس وقت شاید وہ اردو کہ سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب ہیں” ایک پراپرٹی ڈیلر کے اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے۔ اور شام کو ایک نجی ٹی وی پر رشتے کروانے کی ناکام کوششیں کیا کرتے تھے

 ۔۔بات ہے 2006 کی جب بالی وڈ کے ماضی کے مایہ ناز اداکار و ہدایتکار فیروز خان کچھ دیگر فنکاروں کے ہمراہ اپنے بھائی کی فلم “تاج محل” کی نمائش کے سلسلے میں لاہور آئے ۔انہی دنوں بارہ ربیع الاول کے روز سانحہ نشتر پارک میں درجنوں لوگ شہید ہوئے تھے۔ فیروز خان صاحب نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سانحہ پر افسوس کیا اور چند ایک باتیں کیں جیسے مسلم محفوظ ہیں بھارت میں، وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ جو کہ ایک مہمان کی ذاتی رائے قرار دے کر نظر انداز بھی کی جا سکتی تھیں۔

مگر ہمارے مذہبی و نیم مذہبی طبقے نے سانحہ نشتر پارک پر افسوس کرنے پر فیروز خان پر نشتروں کی بارش کر دی۔ بات یہاں تک بھی قابل برداشت تھی۔۔کہ ان  کی دکانداری اسی پر چلتی ہے

مگر اس سب کے بیچ میں تاڑر صاحب نجانے کہاں سے کود پڑے اور پے در پے اپنے کالموں میں نہ صرف فیروز خان، ان کے ماضی و اداکاری پر تنقید کرنے لگے بلکہ ان کے بھائی کی فلم کا بھی تمسخر اڑانے لگے۔ حد اس وقت ہوئی جب انہوں نے برصغیر کے ممتاز موسیقار نوشاد صاحب کی عمر، صحت، دُھنوں اور موسیقی کے لئے ان کی دہائیوں ہر محیط خدمات کا بھی مذاق اڑانے سے دریغ نہ کیا، جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ فیروز خان کی فلم کے موسیقار تھے۔ اور یہ موسیقی ان کی آخری دُھنیں تھیں۔ یہ سلسلہ تاڑر صاحب نے کئی دن جاری رکھا شاید نوشاد صاحب کے انتقال کے بعد بھی۔

میں نو عمر تھا اور حیران تھا کہ کوئی بزرگ کسی دوسرے بزرگ کے بارے میں ایسا کیسے لکھ سکتا، اتنا کیونکر گرِ سکتا ہے۔ انہی دنوں مشہور روسی ادیب چنگیز آئتماتوف کے مایہ ناز ناوال “جمیلہ” کے ساتھ تاڑر صاحب کی بھی ایک مشہور کتاب لایا تھا۔ جمیلہ تو غالباً اسی رات پڑھ ڈالی اور پھر بار بار پڑھا مگر اس دن سے اب تک میرے دل پر اور تاڑر صاحب کی اُس کتاب پر جو گرد کی تہہ جمی وہ اب تک صاف نہ ہوسکی۔

اب مہوش حیات کو تمغہ حسن کارگردگی دیے جانے پر چند حلقوں کی جانب سے شور اٹھا اور عامر خاکوانی صاحب نے اس پر مرثیہ نما کالم لکھا تو سمجھ آتا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں ان کی طبیعت میں طیش کا غلبہ بہت زیادہ ہوگیا ہے جو ان کی بعض تحریروں سے صاف عیاں بھی ہوتا ہے۔اور اسے ان کے کچھ دوست احباب صوفیانہ مزاج کہتے ہیں مگر ناچیز کی تحقیق کے مطابق تصوف کے تمام سلسلوں اور اس کے کم سے کم درجوں اور کسی بھی شرح کی روح سے اس میں رتی برابر بھی طیش کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مگر کیا کیجئے خاکوانی صاحب طیش کی کیفیت میں کبھی منظور پشتین کے خلاف جہاد بالقلم کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی مقتولہ ‘قندیل بلوچ’ کو فاحشہ کہتے لکھتے اور پھر اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔

اب فحاشی کی تعریف کیا ہے یہ تو عامر خاکوانی اور خواجہ حسن نظامی ہی جانیں جنہوں نے ایک وقت میں مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی شہرہ آفاق کتاب ‘بہشتی زیور’ پر بھی فحش تحریر کا ٹھپہ لگایا تھا۔ مگر اس سب کے بیچ میں تاڑر صاحب کو کودنے کی کیا ضرورت تھی۔خوامخواہ ان کے بارے میں جمی گرد کی تہہ میں اضافہ ہو گیا۔ تاڑر صاحب نے مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دیے جانے کے اعلان پر انہیں اپنے نشانے پر لے رکھا ہے اور اس بار ذاتی حملے کرنے کے بجائے ادب کے پیرائے میں طنزیہ نشتر چلا رہے ہیں۔ حالانکہ مہوش حیات پاکستان کی گنتی کی ان چند اداکاروں میں سے ہیں جن کا کام فلم میں صرف ہیرو کے آگے ناچنا اور رونا نہیں ہوتا بلکہ ہر فلم میں ایک جاندار کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ اور شائقیین کو ان کی فلم میں موجودگی کا ہر پل احساس ہوتا ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کے دوبارہ عروج کی جانب گامزن ہونے میں بھی دیگر افراد کے ساتھ مہوش حیات کا بھی اہم حصہ ہے۔

کسے کون سا ایوارڈ اور تمغہ دینا ہے، یہ کام حکومت کا ہے مگر اس دوڑ میں اگر خچروں کے علاوہ دو چار عربی النسل گھوڑے ہیں تو مہوش حیات یقیناً ان میں سے ایک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).