دنیا دہشت گردی کو مسلمان یا اسلام سے آخر جوڑتی کیوں ہے


دکھ اس بات کا ہے کہ میاں نواز شریف نے قتل کیے جانے والے احمدی شہریوں کو اپنا بھائی کیوں کہہ دیا ہے۔ ہم دنیا کو اطلاع دیتے ہیں کہ میاں صاحب کا ایمان تو زائل ہوا ہی ہے ان کا نکاح بھی ڈی ایکٹیویٹ ہوگیا ہے۔ ہم اجلاس میں قرار داد پاس کرتے ہیں کہ مارے جانے والے قادیانیوں کو بھائی کہنے پر میاں نواز شریف تجدیدِ ایمان کریں، تجدیدِ نکاح کریں اور دل آزاری پر پوری قوم سے معافی مانگیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم طالبان شوری کو خط لکھ کر اصرار کرتے ہیں کہ بامیان میں ایستادہ بدھا کے مجسموں کو بموں سے اڑا دیں۔ طالبان جب مجسموں کو اڑا دیتے ہیں تو ہم پاکستان میں شادیانے بجاتے ہیں۔ نمائندہ اخبارات میں اس واقعے پر خصوصی صفحات شائع کرتے ہیں۔ بدھا کے شکستہ مجسموں کی تصاویر بناکر ہم کلینڈر شائع کرواتے ہیں۔ دنیا دیکھتی ہے کہ اس ملک کے پڑھے لکھے کاروباریوں، اساتذہ، وکلا اور علما کے دفاتر میں شکستہ مجسموں والے کلینڈر لٹکے ہوئے ہیں۔ سال گزرچکا ہوتا ہے مگرہم کیلینڈر نہیں اتارتے۔ اس عمل کی مخالفت کرنے والوں کو ہم بتاتے ہیں کہ جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے، یہ مدت بعد محمود غزنوی، رسالتِ مآب اور حضرتِ ابراہیم کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔

دنیا دیکھتی ہے کہ پاکستان میں کسی جرنیل کو آرمی چیف بننے سے روکنا ہو تو ہم اس کے متعلق قادیانی ہونے کی ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔ انتخابات میں کسی کا رستہ کاٹنا ہو تو اس کے کھاتے میں ہم مندر وکلیسا ڈال دیتے ہیں۔ وزیر اعظم معاشی مشاورت کے لیے میاں عاطف کی خدمات لینا چاہیں توہم انہیں قیامت کے نامے بھیجتے ہیں۔ میاں عاطف کے نام سے اس لیے دستبردار ہونا پڑتا ہے کہ اس کے عقیدے سے ریاست کو اتفاق نہیں ہے۔ یہاں ریاستی کارندے ایک وفاقی وزیر کو فرقہ پرور ملا کی بارگاہ میں ایمان کی تصدیق کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ملا کے کارندے وفاقی وزیر سے سوال کرتے ہیں۔ مولوی جواب سے مطمئن نہیں ہوتے تو ریاستی کارندے وفاقی وزیر سے استعفی لے کر ہنستے کھیلتے مولوی کو پکڑا دیتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ یہاں وفاقی وزیر کو جان بچانی ہو تو اسے عمرے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ آرمی چیف کو اپنے ایمان کا یقین دلانا ہو تو تشہیر کے ساتھ اوپر تلے میلاد کی محفلیں کروانی پڑتی ہیں۔ آسیہ مسیح کا فیصلہ نمٹا کرقاضیوں کو روضہ رسول کی جالیوں سے چمٹ کر فوٹو شوٹ کروانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ سپہ سالار کوفرزند ارجمند کی نکاح کی تقریب کو میلاد کی محفل میں بدلنا پڑتا ہے۔ وزیر پہ دنیا تنگ ہوجائے تومولانا ثاقب رضا سے بغلگیر ہوکر ”کھینچ میری فوٹو“ کی آاواز لگانی پڑتی ہے۔ سیاست دان کو تصدیق درکار ہو تو مولانا طارق جمیل کے ساتھ اسے سیلفی لینی پڑتی ہے۔

دنیا ہمارا ایک اور کمال دیکھ رہی ہے۔ یہ کمال ہٹ دھرمی اور نرگسیت کا کمال ہے۔ یوں کہیے کہ حُسنِ تضاد کا کمال ہے۔ یعنی ہم غیر مسلموں کو دعوت کی اجازت نہیں دیتے، اجازت نہ دینا ہمارا حق۔ ہمیں غیرمسلم ممالک میں دعوت کی آزادی چاہیے، یہ چاہنا بھی ہمارا حق۔ بلاول بھٹو نے ماتھے پہ تلک کا نشان لگا کر ہندوبرادری سے محبت کا اظہار کیا، وہ کافر ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے دوپٹہ لیا مسجد گئیں اور اجلاس کا آغاز تلاتِ کلامِ پاک سے کروایا، وہ مسلمان نہیں ہوئیں۔

پاکستان میں غیرمسلموں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا ہم نے گھیراؤ کیا، یہ ہمارا حق ہے۔ کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے غیرمسلم طلبا نے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کھڑے ہوکر اذان سنی، یہ اسلام کی حقانیت ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ازراہِ یکجہتی مندر میں ماتھا ٹیکا، وہ جہنم کی آگ میں جلیں گیں۔ نیویارک میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مسیحیوں نے علامتی سجدے کیے، وہ حورانِ بہشت سے خوش فعلی نہیں کرسکیں گے۔

غیر مسلم ممالک میں فارغ ہونے والے چرچ قادیانیوں کے حوالے کیے گئے، یہ عالمی سازش ہے۔ لندن کے چرچ سنیوں کے حوالے ہوئے، یہ اللہ کی نصرت ہے۔ پاکستان میں لبرل اور سیکولرز کا گھیراؤ کرو، یہ اقامتِ دین کی ضرورت ہے۔ کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا اور فرانس میں لبرل پارٹیوں کو ووٹ کرو، یہ اقامتِ دین کی طرف پیش قدمی ہے۔ کسی غیر مسلم نے اپنا مذہب چھوڑدیا، کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے۔ مسلمان نے اپنا مذہب چھوڑدیا، پکڑلو بچ کے نہ جائے!

دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جب نیوزی لینڈ کے سانحے کو دو دن گزرے تو پاکستان میں دو احمدی ڈاکٹروں کو قتل کرکے فتح جنگ کی سڑک پر پھینک دیا گیا۔ اب دنیا فرض کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان میں ایک سینیٹر اگر اخبار نویسوں کے سامنے کھڑے ہوکر احمدیوں کے قتل کی مذمت سے گریز کرے، تو کیا کوئی نوجوان اس کی ٹنڈ پر انڈہ پھوڑے گا؟ اور اگر کسی سینیٹر نے احمدیوں کے قتل کی مذمت کردی، احمدی شہریوں کو گلے لگالیا، ان کے لیے پارلیمان میں تعزیتی کلمات کہہ دیے تو کیا وہ سینیٹر مملکتِ اللہ داد پاکستان میں دل وجاں سلامت رہ پائے گا؟ دنیا اس بات کو خوب سمجھ رہی ہے کہ انڈہ پھوڑنے والے نوجوان کو سراہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ نوجوان مسلک و مذہب اور رنگ ونسل سے بالاتر سوچتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں ایک ایسے شخص کی تحقیر ہوئی ہے جو اگر مگر والے پاکستانی اسلوب میں سانحے کی مذمت کررہا تھا۔

دنیا دہشتگردی کو اسلام سے کیوں جوڑتی ہے؟ کیونکہ دنیا دیکھتی ہے کہ ہم آئینی جبر، جمہوری استبداد، نصابی ناہمواریوں، عقیدے کی اجارہ داری، جنسی تفریق، مذہبی امتیاز، جنگجووں کی حمایت، مظلوم کی مخالفت، غیر ریاستی عناصر کی ریاستی پشت پناہی، الزام دشنام بہتان غرضیکہ ہرغیر منصافانہ ریے کا جواز اسلام سے ہی پیش کرتے ہیں۔ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2