دنیا دہشت گردی کو مسلمان یا اسلام سے آخر جوڑتی کیوں ہے


دہشت گردی کو دنیا اسلام سے یا مسلمانوں سے کیوں جوڑتی ہے۔ کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں ہونے والے سانحے کے تناظر میں یہ سوال ترک وزیراعظم طیب اردگان نے بھی اٹھایا ہے۔ امتِ مرحومہ نے اس سوال کو سراہا اور خوب سراہا۔ دیکھ لیتے ہیں کہ آخر دنیا ایسا کیوں کرتی ہے!

دنیا جانتی ہے کہ جن حالات سے کبھی ہم گزرے تھے ٹھیک انہی حالات کا سامناکبھی مغرب کو رہا۔ ہم نے بھی شہروں کے شہر اجاڑے، انہوں نے بھی کھوپڑیوں کے مینار پر جھنڈے گاڑے۔ ہم نے مسلم سائنس دانوں کو قلعوں میں بند کر کے مارا، انہوں نے اٹلی کے چرچ میں کھڑا کرکے سزائے موت سنائی۔

ہم نے استنبول میں پبلشرز کے چھاپے خانے جلا کر دھواں کیے، انہوں نے پبلشرز کو برطانیہ میں سولی چڑھایا۔ انہوں نے مسلم عبادت خانوں میں اصطبل بنائے اور ہم نے کلیساوں میں قصاب خانے کھولے۔ آج دنیا دونوں میں ایک فرق دیکھ رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آج اپنے ماضی پروہ شرمندہ ہیں، اپنے ماضی پرہمیں آج بھی فخر ہے۔ محض فخر ہوتا تو کچھ بات تھی، ہم تو اسی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے آج بھی تاریخ کو دہراتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کے ہمارے ہاں غیرمسلم شہریوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں صرف مسلم شہریوں کی تبلیغ گوارا کرنے کی اجازت ہے۔ بیرون ممالک سے غیرمسلموں کے تبلیغی قافلے پاکستان نہیں آسکتے۔ اسلامی تعلیمات میں دلچسپی ہو تو ضرور آسکتے ہیں۔ ہمارا آئین عقائد کے حوالے سے اپنی واضح رائے رکھتا ہے۔ ہمارا نصاب مذاہب پر تبصرے کرتا ہے۔ غیرمسلم اگر یکساں شہری حیثیت کے طلبگار ہوں تو محض پاکستان میں پیداہوناکافی نہیں ہوگا۔

برابری درکار ہے تو ریاست کے بالادست عقیدے کے آگے تسلیم بھی ہونا ہوگا۔ بصورت دیگر کسی خاص منصب پر ملک کی خدمت کے لیے ان کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکے گا۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے وقت اپنے پیدائشی کوائف دینا کافی نہیں ہوں گے۔ اپنے مذہبی عقیدے کی تفصیلات بتانا بھی ضروری ہیں۔ ووٹ دیتے اور لیتے وقت آپ کا محض شہری ہونا کافی نہیں ہے۔ مذہب کے تناظر میں کچھ اور سوالات ہیں جن کی جوابدہی ضروری ہے۔

سرکاری اسامیوں کے اشتہارات میں برتر نوکریاں کلمہ گو شہریوں کے لیے خاص ہوں گیں۔ خاکروبی کے خانے مسیحیوں اور ہندووں کے لیے مختص ہوں گے۔ ملک کا چیف جسٹس انتہائی ذمہ دار منصب سے کھڑے ہوکر ہندووں سے متعلق کہتا سنائی دے گا، ان کا تو میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ دنیا کو حیرت چیف جسٹس کے کہے پر نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کے کہے پر قوم کے شعوری اطمینان پر ہوتی ہے۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارے پاس دو مسیحی شہریوں پر باندھے گئے بہتان کے لیے ثبوت ناکافی ہوجاتے ہیں تو ہم کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس عارف اقبال بھٹی کو قتل کردیتے ہیں۔ کٹہرے میں ہماری ساری دلیلیں جب پٹِ جاتی ہیں تو ہم جنید حفیظ کے وکیل راشد رحمان ایڈوکیٹ کو قتل کردیتے ہیں۔

آسیہ مسیح کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے منظور ہوتی ہے تو ہم صاف کہہ دیتے ہیں کہ انصاف وہی تصور ہوگا جو ہمارے حق میں ہوگا۔ ہماری منشا کے خلاف فیصلہ ہوا تو ہم حالات کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ایک مکار مولوی رمشا مسیح پر توہین قرآن کا مقدمہ دائر کرتا ہے۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی سارا جہان مولوی کا طرف دار ہوجاتا ہے۔ دو گواہ عدالت میں بتاتے ہیں کہ قرآن کے اوراق اس مولوی نے خود جلائے تھے۔ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سوال کسی نے اٹھایا ہی نہیں کہ قرآن جلانے والے مولوی کا اب کیا کریں؟ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ ایک مفلس ناخواندہ مسیحی بچی موت کے منہ سے نکل کیسے گئی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ غازی علم دین کوہم نے نصاب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ کم سن بچوں کو ہم پڑھاتے ہیں کہ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری نے عشق و محبت میں ڈوبی تقریر کی تھی تو یہ دیدہ ور پیدا ہوا تھا۔ اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ قائد اعظم نے اس کا مقدمہ لڑا تھا۔ اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ علامہ اقبال نے اس سے متعلق کہا تھا، ترکھان کا لونڈا بازی لے گیا ہم دیکھتے رہ گئے۔ اس کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ علامہ نے غازی علم دین کا جسد خاکی قبر میں اتار تھا۔

اس کے برحق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایم ڈی تاثیر نے غسل کے لیے چارپائی مہیا کی تھی۔ دنیا اس نصاب کے نتائج ممتاز قادری کی صورت میں دیکھتی ہے۔ ممتاز قادری ایک خونِ ناحق کرتا ہے تو اس کا ماتھا چومنے کے لیے محمود و ایاز ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ وظیفہ خوارانِ شہر اعلان کردیتے ہیں کہ ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔ سلمان تاثیر کے کچھ نمک خوار اگر کندھا دینے کے لیے حامی بھرنے کا سوچ بھی لیتے ہیں تو انتڑیوں میں بل پڑ جاتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم سلمان تاثیر کے قتل کی خبر سنتے ہیں تو ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات بھجواتے ہیں۔ ممتاز قادری کو ہم کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ اول ممتاز قادری کے ارتکاب کی جانچ کے لیے میزان قائم ہونے نہیں دیتے۔ میزان قائم ہوجائے تو ممتاز قادری کی حمایت میں ہم ملک بھر میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے جج پرویز شاہ کا اس قدر گھیراؤ کرتے ہیں کہ وہ اہل خانہ کو بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں۔ علما میں سب سے معتدل اور معتبر عالم ہم مفتی تقی عثمانی کو سمجھتے ہیں۔

شیخ الاسلام کے منصب پر بیٹھے حضرت مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں، سلمان تاثیر اگر قصوروار نہیں تھے تواس صورت میں بھی اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ خوش نیتی کے سبب ممتاز قادری کی بخشش ہوجائے گی۔ کیونکہ اس نے جو قتل کیا ہے وہ نبی کی محبت میں سرشار ہوکر کیا ہے۔ دنیا حیران ہوجاتی ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب جج بھی رہ چکے ہیں۔ حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہتا جب دیکھتے ہیں کہ ایک اور جج جسٹس میاں نذیراختر اجتماعِ عام میں کہتے ہیں، ممتاز قادری کوشرعا اور قانونا سزا نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس نے سلمان تاثیر کا خون کرکے وہ ذمہ داری نبھائی ہے جو دراصل عدالت کو نبھانی چاہیے تھی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم مشال (سچے سرخ پوش کا عظیم بیٹا) کو توہینِ مذہب کے مقدمے میں گھیرتے ہیں اور پھرتکبیر کے نعروں میں اسے سنگسار کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس قتل کو ہم سراہتے ہیں۔ قاتلوں کی حمایت میں ہم جتھے کی صورت نکل آتے ہیں۔ عدالت میں جب ثبوت وشواہد ناکافی ہوجاتے ہیں تو ہم عدالت کا گھیراؤ کر لیتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر مشال کے قاتلوں کو سزا ہوئی تو ہم نظام بٹھا دیں گے۔ مردان کے چوک پر علمائے دین مشترکہ فتوی جاری کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، مشال نے اگر مذہب کی توہین نہ کی ہو، تو بھی قاتلوں کو سزا اس لیے نہیں دی جاسکتی کہ انہوں نے یہ قتل حضورؐ کی محبت میں کیا ہے۔ قاتل رہا ہوتے ہیں تو ہم استقبال کرتے ہیں۔ قاتل صوابی انٹرچینج پر فخریہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہاں ہم نے قتل کیا تھا اور آئندہ بھی مشالوں کو اسی انجام سے دوچار کریں گے۔ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے کہ اعتراف کے باوجود عدالت ان قاتلوں کو قانون کے آگے جوابدہ نہیں کر سکتی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ملالہ یوسفزئی دہشت گردوں کے خلاف آتی ہے تو ہم موقف کی تائید کرنے کی بجائے شک کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ آرٹیکل لکھتی ہے تو ہم پوچھتے ہیں سچ بتاؤ کس نے لکھ کر دیا۔ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر اعتماد سے سوال کا جواب دیتی ہے تو ہم کہتے ہیں اسے پیشگی سوال بتا دیے گئے تھے۔ تیاری کر کے جوابات دے رہی تھی۔ ملالہ پر فائرنگ ہوتی ہے توہم مذمت کی بجائے ثبوت مانگتے ہیں کہ بتاؤ کہاں گولی لگی۔ ملالہ مدت بعد پاکستان آتی ہے تو ہم استقبال نہیں کرتے، سوال کرتے ہیں۔ خیریت تو ہے کیوں آ رہی ہے؟ ۔ ملالہ نوبل انعام کے لیے نامزد ہوتی ہے تو ہم سوال کرتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی کو کیوں نہیں دیا گیا۔

دنیا پھر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ وہی عبدالستار ایدھی وفات پا جاتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھیں کیوں دان کر دیں؟ دعوی داغ دیتے ہیں کہ وہ تو ملحد ہیں ان کے جنازہ کیسے پڑھایا جا سکتا ہے؟ یہاں تک کہ روتھ فاؤ کا انتقال ہوجائے تو یہ ملک سوگوار نہیں ہوتا بلکہ فکرمند ہوجاتا ہے۔ فکرمند اس بات کے لیے کہ کہیں کوئی اس کے لیے مغفرت کی دعا تو نہیں کر رہا؟ خدانخواستہ کوئی اس کے جنت مکانی ہونے کی خوش گمانی تو نہیں پال رہا؟

دنیا دیکھتی ہے کہ یہاں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں تو تعزیت کے لیے صرف دو لوگ میسر آتے ہیں۔ جو دو میسر آتے ہیں ان کو بھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ہم اپنے فون بند کردیتے ہیں کہ کہیں مذمت ہی نہ کرنی پڑجائے۔ ہم دو دن بعد فون کھولتے ہیں تو علمائے دین کا ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں طلب کرلیتے ہیں۔ دنیا کو لگتا ہے کہ یہ پچھلے دنوں ہونے والی سفاکیت پر دہشت گردوں کی مذمت کریں گے۔ مگر دنیا کوپتہ چلتا ہے کہ ہمیں اس بات کا قطعاً دکھ نہیں ہے کہ کچھ شہری بے دردی سے قتل کردیے گئے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2