شادی سے بھاگنے کے لیے لڑکی کو ایک عدد گاڑی چاہیے


اپنی شادی سے بھاگ نکلتی لڑکی کے لیے گاڑی کا اشتہار دیکھ کر جن کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہے انہیں دراصل اسی زمین میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کی عادت ہے۔

یہ اشتہار ایک ایسے سماج کے ٹھہرے پانی میں پہلے پتھر کی طرح ہے جو بیٹیوں کو شادی کے نام پر زنا بلجبر کے حوالے کرتا ہے اور اس پر شادیانے بجاتا ہے۔

جہاں لڑکی کو دباؤ میں قبول ہے کہلوایا جاتا ہے۔
جہاں یہ سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا کہ زبردستی کی شادی سرے سے جائز ہی نہیں۔ عین شریعت و قانون کے مطابق نکاح ہوا بھی کہ نہیں!

جہاں نکاح نامے پر لڑکی صرف دستخط کرتی ہے (ورنہ گردن ہلا دینا کافی ہے ) یا پھر باپ بھائی بغیر لڑکی کی اجازت کے خود ہی ولی بن کر معاملہ طے کردیتے ہیں۔

حق مہر تک وہ نہیں مقرر کرتی۔
وہ حق مہر کہاں گیا؟ کیا تھا اور ادا ہوا کہ نہیں؟ کچھ خبر نہیں ہوتی۔
نکاح نامے کا کاغذ تک اس کے پاس موجود نہیں ہوتا کہ اسے خبر ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے!

بعض لوگ تقریباﹰ بتیس روپوں کی رقم کو شرعی کہہ کر مسلمان لڑکی کا منہ بند کردیتے ہیں۔
یہ تو وہ سماج ہے جہاں دن میں لڑکی کو کھڑے کھڑے اکثر طلاق ہوتی رہتی ہے مگر رات کو اسی کے ساتھ ہم بستر ہونا ہوتا ہے اس نے۔

جہاں ماں باپ رخصت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب وہاں سے مر کر نکلنا۔
نتیجتاً شوہر دھکے دے کر نکال دے تو ماں باپ واپس لاکر اس کے قدموں میں ڈالتے ہیں کہ یہ اب تمہاری ملکیت ہے ہماری نہیں۔

اس سماج میں والدین نکاح کو جوا کہتے ہیں اور جوا میں ہار ہوتی ہے یا جیت! اسے لڑکی قسمت کہا جاتا ہے۔
یعنی لڑکی کو جوا کے داؤ پر لگانے کا تصوّر ہے لڑکی کی شادی!
نکاح ہوجانے کے بعد شوہر کیسا نکلتا ہے، یہ لڑکی قسمت!

اکثر لڑکیاں جہیز کے حساب کتاب میں سسرالیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں اور جلائی جاتی ہیں۔
شوہروں کے ہاتھوں پٹتی بھی ہیں اور اپنا فرض سمجھ کر جسم پر لگے ان زخموں کے نشان چھپاتی پھرتی ہیں کہ اگر ظاہر کردیں تو زمانہ تھو تھو کرے کہ شوہر کو بدنام کرتی ہے!

اس سماج میں بھائی کسی اور کی لڑکی بھگا کر لاسکتا ہے مگر بہنیں بھائیوں کی من گھڑت غیرت پر قربان کردی جاتی ہیں۔
اس بے غیرتی نما غیرت کے الاؤ میں آئے دن بھائیوں کے ہاتھوں لڑکیاں زندہ جلائی جارہی ہوتی ہیں کہ اس نے کسی کو پسند کیوں کیا!
کسی نے اس کی طرف نگاہ اٹھائی کیسے!

شریف بہو کا معیار یہ ہے کہ وہ سسرالیوں اور بلخصوص ساس کی خدمت میں گھِس جاتی ہے اور عیش کرتا فرمانبردار بیٹا اس کے صلے میں بہشت کمانے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ بیوی کے ذریعے وہ والدین کا حق ادا کررہا ہے!

اس سماج کی بیٹیاں تو بیٹی پیدا کرنے کے جرم تک کی سزا سے گزرتی ہیں۔
دیور اور سسر کے ہاتھوں مارا جانا آئے دن کی خبروں میں ملے گا۔

نکاح ایک مرد سے ہوتا ہے، پراپرٹی وہ اس گھر کے سارے مردوں کی ہوتی ہے۔
یہ تو ہے شہری سماج کا حال۔

پھر دیہی سماج میں جرگہ سسٹم کی لعنت جو ہر دور کی حکومت اور عدالتی نظام کے منہ پر کالک کی طرح آج بھی موجود ہے۔
جس میں آٹھ دس پگڑی والے قتل کے بدلے لڑکی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں! اور کم عمر لڑکیاں بڈھوں کے حوالے کردی جاتی ہیں۔ ِ

اگر لڑکی نے کسی کو پسند کرلیا تو یھی سفید اور اونچی پگڑیوں والے لڑکا لڑکی دونوں کے قتل کا حکم جاری کردیں گے۔ یا پھر لڑکی کو کسی اور بدلے میں دے دیا جائے گا اور لڑکا مار دیا جائے گا!

چاروں صوبوں کے شہری اور دیہی سماج میں آئے دن لڑکیاں قتل ہوتی ہیں مگر ان کا حساب نہیں ہوتا۔
ان کا کوئی نشان و ثبوت نہیں ملتا۔
اردگرد کا پورا سماج دستانے پہن لیتا ہے۔

ریاست اور عدالتی نظام لڑکیاں یا عورت ہی کیا، مجموعی طور پر فرد کی زندگی کے تحفظ اور حقوق کے معاملے میں خود کو اندھا ثابت کرچکے ہیں۔
اندھے نہیں بھی ہیں مگر ہم نے مان لیا ہے کہ یہ اندھے اور معذور ہیں۔ یہ ہماری کچھ مدد نہیں کرسکتے!

یہ وہ ملک ہے جہاں کی نسلوں کو نصاب میں پڑھایا جاتا رہا ہے کہ حجاج نے ایک لڑکی کی پکار پر سندھ پر فوج کشی کی تھی!
اس ملک میں ہر روز لڑکیاں عین ریاست و عدالت کی ناک کے نیچے دھجیاں ہورہی ہوتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ ایسا سماج بلبلا اٹھتا ہے جب شادی سے بھاگنے پر گاڑی کی آفر کا اشتہار آتا ہے کہ نہیں نہیں۔ یہ اشتہار ہماری اعلیٰ تہذیب کے خلاف ہے!

اشتہار دراصل یہ ہونا چاہیے کہ ماری گئی لڑکی کی لاش گم کرنے کے لیے گاڑی حاضر ہے۔
بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں گھر سے نکالی گئی عورت کو اگر بیٹی سمیت سمندر میں کود کر خودکشی کرنا ہو تو گاڑی حاضر ہے۔
والدین کے گھر سے دھتکاری لڑکی کو واپس ظالم شوہر اور سسرال کے گھر پہنچانے کے لیے گاڑی حاضر ہے۔
جلائی گئی لڑکی کو ہسپتال کے بجائے کچرا کنڈی میں پھینکنے کے لیے گاڑی حاضر ہے۔

مگر میں داد دیتی ہوں اسے جس نے شادی سے بھاگنے کا یہ اشتہار تخلیق کیا۔
کاش ایسا ممکن ہوجائے کہ ظلم کے کنویں میں ہمیشہ کے لیے پھینکے جاتے وقت لڑکی کو اچانک کوئی ایسی گاڑی مل جائے جو اسے اس کے تمام مذہبی و قانونی حقوق اور جان کے تحفظ کے ساتھ اس محفوظ مقام تک پہنچا دے جہاں دنیا والوں کی گھٹنوں تک لٹکتی ہانپتی زبانیں نہ ہوں، جن کے ڈر سے لڑکیاں قربان ہوجاتی ہیں۔

کاش کہ وہ گاڑی باپ یا بھائی ڈرائیو کرے اور اسے اس ظلمت کدے سے بھگا لے جائے۔
یہ آخری الفاظ لکھتے ہوئے مجھے اپنی زندگی کا ایک ایسا واقعہ یاد آگیا ہے جسے میں اپنے لیے آج بھی اعزاز سمجھتی ہوں اور یہاں بے اختیار لکھنے لگی ہوں۔

1983۔ 84 میں میں نے اپنا پہلا سیریل جنگل لکھا تھا۔
جنگل سندھ کے جاگیردارانہ سماج کی قدیم روایات پر ایک احتجاج بھری کہانی تھی۔

اس میں دو ایسی لڑکیوں کے کردار بھی تھے کہ جاگیردارانہ روایت کے مطابق جن کی شادی ممکن نہیں تھی۔
کہانی میں بھائی اور باپ کئی شادیاں رچا رہے تھے مگر یہ دو لڑکیاں چاردیواری میں مقید تھیں۔

جنگل چل کر ختم ہوا اور اسے دو سال کا عرصہ گزر گیا۔
ایک دن میں کراچی میں اپنی ایک دوست کے گھر گئی۔ وہاں میری دوست کی امی نے ساتھ کے فلیٹ سے خاص طور پر ایک لڑکی کو مجھ سے ملنے کے بلوایا۔

میں سمجھی ڈرامے کی شہرت کی وجہ سے میری مداح ہوگئی ہوگی، اس لیے مجھ سے ملنے کا شوق ہے اسے!
کچھ دیر بعد ایک پیاری سی سندھی لڑکی آئی، جس کی گود میں چند ماہ کی بچی تھی۔

لڑکی نے مجھے کہا، آپ کو پتہ ہے میری بیٹی کا نام کیا ہے؟
اس معصوم سوال پر میں نے رسمی مسکراہٹ کے ساتھ انکار میں سر ہلا دیا۔
لڑکی نے کہا، اس کا نام نورالہدیٰ شاہ ہے۔
میں اس بات کو بھی اس کی معصومیت سمجھی اور مسکرا دی۔

کہنے لگی کہ آپ پوچھیں گی نہیں کہ اس کا یہ نام کیوں ہے!
میں نے مسکرا کر کہا کہ تمہیں یہ نام اچھا لگتا ہوگا اس لیے!

جواب میں اس نے جو بات بتائی وہ یوں تھی کہ میں سندھ کے ایک قدامت پرست جاگیردار سید گھرانے سے ہوں۔
ہمارے خاندان میں بیٹیوں کی شادیاں نہیں ہوتیں۔ میری بہنوں کی بھی نہیں ہوئی اور میری پوپھیوں کی بھی نہیں ہوئی اور ان سے پہلے والیوں کی بھی نہیں۔

خاندان کے مرد باہر سے شادیاں کرکے لاتے ہیں۔ یوں میری ماں اور بھابھیاں بھی باہر کی ہیں۔
ہمارے گھر میں ٹی وی بھی نہیں ہے اس لیے ہم نے آپ کا ڈرامہ جنگل بھی نہیں دیکھا تھا۔

میرا چھوٹا بھائی کراچی میں پڑھتا تھا۔ اس نے جنگل دیکھا۔
گاؤں آیا اور اس نے میرے بابا اور بھائیوں کو کہا کہ بیٹیوں کی شادیاں کرو اور انہیں آزاد زندگی دو۔
اس بات پر میرے بھائی اور بابا اس پر سخت غصہ بھی ہوئے اور آئندہ ایسی بے غیرتی والی بات کہنے سے بھی سختی سے منع کیا۔

کچھ دنوں بعد میرا بھائی پھر گاؤں آیا اور مجھے تنہائی میں بٹھا کر پوچھا کہ تم شادی کروگی؟ اس قید سے نکلنا چاہوگی؟ اس نے مجھے سمجھایا کہ زندگی بار بار نہیں ملتی۔ تمہیں اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے۔ میں ساری بہنوں کے لیے تو کچھ نہیں کرسکتا مگر تمہارے لیے میں نے خالہ زاد بھائی سے بات کی ہے۔ وہ تمہارا ہم عمر ہے۔ پڑھا لکھا اور اچھے روزگار والا ہے۔ وہ تم سے نکاح کرنے کو تیار ہے۔

اس رات میرا بھائی رات کے اندھیرے میں مجھے سب سے چھپاکر اپنی جیپ میں حویلی سے نکال لایا۔
میں نے زندگی میں حویلی سے باہر قدم نہیں نکالا تھا کبھی اور نہ ہی کبھی گاڑی میں بیٹھی تھی۔
میرا بھائی مجھے سیدھا کراچی لے آیا۔

کراچی میں میرا خالہ زاد پہلے سے ہی انتظام کیے ہوئے تھا۔ پہنچتے ہی ہمارا نکاح ہوگیا۔
پیچھے میرے بھائی نے کیا کچھ برداشت کیا ہوگا وہ آپ سمجھ سکتی ہیں۔ مگر میں پھر پیچھے نہیں گئی اور ایک آزاد اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں۔
جب میری یہ بیٹی ہوئی تو ہم نے اس کا نام نورالہدیٰ شاہ رکھا۔

میں آج بھی جب اس لڑکی کی کہانی یاد کرتی ہوں تو میرے تصوّر میں وہ بھائی آتا ہے جو رات کے اندھیرے میں پوری اسپیڈ کے ساتھ جیپ چلاتے ہوئے اپنی پیاری سی بہن کو ظلمت کدے سے بھگاکر ایک آزاد زندگی کی طرف لیے جارہا ہوگا اور اس کا دل اپنی بہن کے دل کے ساتھ ساتھ جوں جوں تیز دھڑکتا ہوگا وہ گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھا دیتا ہوگا!
اس گاڑی کو چلانے والے بھائی کا دل یقیناﹰ رحم سے بھرا ہوا کریم دل ہوگا!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah