سندھ کا پہلا مسنگ پرسن۔ پیر پاگارہ سورہیہ بادشاہ


آج سید صبغت اللہ شاہ دوم پیر صاحب پاگارہ کی 76 ویں برسی ہے۔ ان کو سورہیہ بادشاہ اور پیر صاحب شہید بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کی برصغیر میں تقریبا چار سو سالہ دور حکومت میں صرف ایک علاقے میں مارشل لا لگا اور وہ سندھ تھا۔ یہ مارشل لا انگریزوں نے اپنے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنے اور اس بغاوت کے بانی و لیڈر پیر پاگارہ سید صبغت اللہ شاہ سورہیہ بادشاہ کو سزائے موت دینے کے لئے لگایا تھا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بغاوت کتنی طاقتور ہوگی کہ اس کو کچلنے کے لئے سندھ میں مارشل لا لگایا گیا جو سندھ اسمبلی نے 20 مارچ 1942 کو حر ایکٹ کے نام سے بل پاس کرکے لگایا۔

جس کے بعد سندھ کے صرف چار اضلاع میں تیس ہزار فوج متعین کردی گئی، ہوائی جہازوں سے بمباری کی گئی اور ہزاروں حروں کو پورے خاندان سمیت جیلوں اور کیمپوں میں قید کیا گیا۔ یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ ان انقلابیوں کے خلاف مارشل لا لگانے والے اس اجلاس میں سندھ کے سب معتبر رہنما شامل تھے، سندھ کے ایک اور نامور سپوت وزیر اعظم ( اس وقت سندھ کے وزیر اعلی کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا ) شھید اللہ بخش سومرو، شیخ عبدالمجید سندھی، غلام حسین ہدایت اللہ جیسے رہنما اس اجلاس میں موجود تھے سوائے جی ایم سید کے جو سندھ پرمارشل لا مسلط کرنے کے بل کی کارروائی کے دوران 19 اور 20 مارچ 1941 کو اسمبلی اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے

سید صبغت اللہ شاہ دوم 1909 ء کو پیر جو گوٹھ، ضلع خیر پور میرس، سندھ میں پیدا ہو ئے۔ جوانی میں ہی ان کو بہادری کی وجہ سے ان کے احباب اور مرید سورہیہ بادشاہ پکارتے تھے۔ سورہیہ کی سندھی زبان میں معنی ہیں بھادر۔

سید صبغت اللہ شہید کی تحریک کا نام ”حر تحریک“ ہے اور ان کا ولولہ انگیز پر جوش نعرہ تھا ”بھیج پاگارہ“ اور ”وطن یا کفن، آزادی یا موت“۔ اس تحریک کے دو مراکز تھے۔ ایک خانقاہ راشدیہ پیران پاگارہ پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور اور دوسرا گڑنگ کا بنگلہ عرف پیر صاحب کا بنگلہ سانگھڑ سندھ۔

پیر صاحب کو 24 آکتوبر 1941 کو آخری مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ جس پر حروں کی شدید مذاحمت کو دیکھتے ہوئے سندھ میں 20 مارچ 1942 کو مارشل لا لگایا گیا، جس کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ایک، اس وقت دوسری عالمی جنگ اپنے عروج پر تھی، ہٹلر اور جاپان کے جنرل ٹوجو انگریزوں پر بھاری پڑ گئے تھے، جنرل رومیل نہرِ سوئیز کو آ پہنچا تھا، جاپانی سپاہی کلکتہ کے دروازے پہ تھے۔ ایسے میں انگریز سندھ میں اتنی طاقتور بغاوت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔

اس مارشل لا کا دوسرا سبب یہ تھا کہ انگریزوں کو اندازہ تھا کہ حروں کی مزاحمت توڑنے سے پہلے وہ پیر صاحب کو سزائے موت نہیں دے پائیں گے اس لئے انہوں نے پیر صاحب کو گرفتار کر کے پہلے سندھ میں مارشل لا لگایا اور پھر ان پر اسی مارشل لا کے قانون کے تحت کیس چلا کر شہید کر دیا۔ مقدمہ کے دوران میں انگریز حکومت نے اپنے کئی ایجنٹوں کو پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ حکومت سے معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ پھانسی سے بچ سکتے ہیں لیکن پیر صاحب نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا ”شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم تو صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں“۔

ملٹری کورٹ میں جب آپ پر مقدمہ چلایا گیا تو آپ نے ا س سے بیزاری اور بے رخی کا اس انداز سے اظہار کیا جو حریت پسندوں اور مجاہدوں کی شایان شان ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے پھانسی کا پہندہ گلے میں ڈالنا پسند کر لیا لیکن غلامی اور جابر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوارانہ کیا۔

پیر صاحب کو صرف 34 سال کی عمر میں حیدر آباد جیل میں بغاوت کے کیس میں مارشل لا عدالت نے جیل کے اندر ہی کیس چلا کر پھانسی دے کر شھید کیا گیا، ان 34 برسوں میں دس سال وہ انگریزوں کی غلامی نہ کرنے کے باعث ہندوستان کے مختلف جیلوں، رتنا گری، راج شاہی، پونے، میں قید رہے۔ یعنی ان کو جینے کے لئے صرف 24 سال ملے جن میں بھی جدوجھد، روپوشی اور مشکلات۔ سورہیہ بادشاہ پر مارشل لا عدالت نے بغاوت کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی اور ان کو 20 مارچ 1943 ء کو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدرآباد میں فقط 34 سال کی عمر میں پھانسی دے دی گئی۔

لیکن اس بغاوت اور پھانسی سے بڑا المیہ یہ ہے کی ان کی لاش کو گم کردیا گیا اور آج تک کسی کو معلوم نہیں جنگ آزادی کے اس مجاہد کی لاش کہا دفن ہے، میں پیر پاگارہ سورہیہ بادشاہ کو سندھ کا پہلا لا پتہ شخص لکھتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).