دہشت گرد مذہب نہیں انسان ہوتے ہیں


جب بھی کوئی انسان اپنے آپ کو دنیا سے کمتر، کمزور اور حقیر سمجھنے لگتا ہے تو وہ اپنی انا کی تسکین کے لئے دنیا پہ اپنا رعب دھونس دھاندلی کے ذریعے جمانے کی کوشش کرتا ہے۔ دنیا میں تخریب کاری، نفرت اور خوف قائم کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ بے گناہ انسانوں کا خون کرنے سے بھی گرہیز نہیں کرتا ہے۔ ان تمام عوامل کو آج کی جدید اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں دہشتگردی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی مذہب کے نام پہ کی جا رہی ہے حالانکہ مذہب کی ابتدا انسان کی پیدائش کے بعد شروع ہوئی ہے۔

حضرت آدم (ع) کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو انا کی تسکین، احساس کمتری اور حسد کی بنا پہ قتل کر کے دنیا میں دہشت گردی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کو جنم دینے والوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دہشت گرد کا کوئی بھی مذہب نہیں ہوتا بلکہ انسان خود ہی دہشت گرد ہوتے ہیں جن کا تعلق دنیا کے کسی بھی نسل خطے اور مذہب سے ہو سکتا ہے۔

نیوزی لینڈ میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی جتنی بھی مزحمت کی جائے کم ہے جس میں ایک سفید فارم آسٹریلین عیسائی دہشت گرد نے اپنے ملک میں موجود اقلیتی برادری (مسلمانوں ) کی مسجد پہ دہشت گردانہ اور بزدلانہ حملہ کر کے پچاس کے قریب نہتے اور معصوم انسانوں (مسلمانوں ) کی جان لے کر ثابت کیا کہ دہشت گرد کسی بھی نسل، خطے اور مذہب سے ہو سکتا ہے۔ اس لئے کسی بھی ایک مذہب یا خطے کو دہشت گردی سے جوڑنا انصاف نہیں بلکہ انتہائی شرمناک اور احمقانہ فعل ہے۔

دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار مسلم ممالک ہوئے ہیں اور اس کے باوجود الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مانند اہل مغرب کی ہمیشہ کوشش بھی یہی رہی ہے کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑا جائے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی یہ قبیح فعل انجام پائے ملبہ مسلمانوں اور اسلام پہ ڈالنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

آج کی دنیا میں شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو جہاں دہشت گردی کے واقعات وقوعہ پذیر نہ ہوتے ہوں اس لئے انسانوں کی بقا کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام انسان بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق کیے دہشت گردی کے خلاف اکٹھے ہوں اور دہشت گردی کو شکست دیں۔

حالیہ نیوزی لینڈ دہشت گردی میں ہم نے انسانوں کے یگانگت و اتحاد کا بہترین مظاہرہ دیکھا ہے جس میں سب سے بڑھ کر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن نے دہشت گردی کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے نہ صرف سیاہ لباس زیب تن کیا بلکہ عملی طور پہ خود بھی لواحقین کے غم میں شرکت کی۔ اور اپنی عوام سے بھی کہا کہ وہ لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر سمجھا ”یہ سب ہم میں سے ہیں جبکہ دہشت گرد ہم میں سے نہیں ہے“۔ نیوزی لینڈ حکومت نے اپنے حکومتی فرائض نبھاتے ہوئے نہ صرف دہشت گرد کو دہشت گرد قرار دیا ہے بلکہ گرفتاری عمل میں لا کر مزید قانونی کارروائی بھی بروئے کار لا رہی ہے۔

فیس بک پہ ”گیو اے لٹل“ کے نام سے خصوصی پیج متارف کروا کے مسلمان متاثرین کے لئے چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ حتی کہ مسلمانوں کے لئے حلال فوڈز کھانوں کو بندوبست کیا جا رہا ہے۔ انسانوں (مسلمانوں ) کی تدفین کے لئے تمام انسانوں نے (مسلمان، سکھ، یہودی) شرکت کی ہے۔ لیانس ہوورڈ اور یوتی کے بنائے فیس بک پیج محبت و اخوت کی بہترین مثالیں ہیں۔ آسٹریلوی سینیٹر فریزر رایننگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کی مزحمتیں کی جاری رہی ہیں۔

جب کہ پرچم بھی سرنگوں کیے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے اس حملے میں بہادری دکھانے والوں کے لئے ایوارڈز کے اعلان کیے جا رہے جو کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے انتہائی اچھے اقدام ہیں۔ نیوزی لینڈرز جیت گئے ہیں انسان جیت گئے ہیں۔ مستقبل میں بھی انسانوں کو اسی محبت و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور تمام مذاہب کے لوگوں کو اکٹھا ہونا ہوگا کیونکہ دہشت گردی مذہبوں کا نہیں انسانوں کا مسئلہ ہے۔

اہل مغرب اور خصوصا آج کی سپر پاور امریکہ کو بھی اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دہشت گردی کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی مسلمانوں سے کوئی تعلق ہے بلکہ دہشت گرد مذہب، رنگ اور نسل سے آزاد صرف دہشت گردہوتا ہے۔

تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا اور دہشت گردوں کو دشمنوں کی صف میں کھڑا کر کے مقابلہ کرنا ہو گا ورنہ انسانوں کو نا حق قتل عام ہوتا رہے گا اور دنیا کبھی بھی امن کی جگہ نہیں بن سکے گی۔

شکریہ جسینڈا آرڈرن شکریہ نیوزی لینڈرز انسانوں کو محبت سکھانے اور غموں کو بانٹنے کا مظاہرہ کرنے پہ ہم آپ کے تہہ دل سے مشکور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).