مضامین چوروں سے ہوشیار!


مکرمی حضرات قلم و قرطاس کی داستان بہت پرانی ہے شروع زمانے میں چمڑوں پر تحریر لکھی جاتی تھی جیسے جیسے انسانوں نے ترقی کی منازل کو طے کیا اور اپنی عقل کو دوڑایا تو اس پر خدا وند عالم کی عظیم ترین نعمتوں کا علم ہوا عقل سلیم ہی اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان نے اپنی عقل کا‌ استعمال کر کے نئے نئے چیزیں قدرتی وسائل کے ذریعے ایجاد کی اور آج ہم ایک جدید ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی گزار رہے۔

قلمکار اپنی سوچ کو لفظوں کا پیرہن دے کر تخیلات کو قرطاس کے حوالے کر کے تحریر کو خوبصورت بناتا ہے جو قارئین کے ذہن و دل پر اثر انداز ہوتی ہے اور پڑھنے والے کا تجسس اس وقت تک ختم‌ نہیں ہوتا جب تک تحریر کو پورا نہ پڑھ لیں۔ تحریر سے مراد اردو ادب کا کوئی بھی پہلوں لیا جاسکتا ہے چاہے شاعری کا‌میدان ہو مضمون نگاری، نثر نگاری، افسانہ نگاری، وغیرہ ہو۔ قلمکار کا کسی تحریر کو شائع کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ زیادہ لوگ استفادہ حاصل کر سکے، آج سے دس پندرہ سال پہلے کسی مضمون کو اگر شائع کروانا ہوتا تو مضمون نگار کو اپنا مضمون بائے پوسٹ مدیر کو ارسال کرنا ہوتا ہے اور اس میں کافی وقت درکار ہوتا۔

لیکن آج ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے سے کچھ ہی پلوں میں ہزاروں کلو میٹر دور ہم اپنا پیغام باآسانی پہنچا سکتے ہیں کچھ سال قبل تک پرنٹ میڈیا بہت عروج پر تھا لیکن آج کل اس کی جگہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور نیوز پورٹل نے لے لی ہے جس کے ذریعے سے فوراً کچھ ہی دیر میں حادثے کی خبر یا کسی اہم مضمون کو نیوز پورٹل پر شائع کردیا جاتا ہے ہمارے لیے کافی اچھی بات ہے لیکن جو مضامین وغیرہ قلمکار اپنی محنت سے تحریر کرتا ہے اپنی سوچ و فکر کو لفظوں میں ڈھال دیتا ہے جس میں اسے کافی وقت محنت درکار ہوتی ہے اور جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے وسیع مطالعے کی بنا پر مضمون تحریر کرتا ہے کئی کئی کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور پھر خون جگر سے اپنی سوچ کو قرطاس کے حوالے کرتا ہے۔

آج کل اخبارات کے علاوہ کئی سارے نیوز پورٹل آنلائن شروع ہو چکے ہیں جس پر قلمکار اپنی تحریریں شائع کرواتے ہیں۔ لیکن کچھ قلم چور بے غیرت افراد ان کی تحریروں کو اپنے نام سے دوسرے اخبارات میں شائع کرواتے ہیں اخبار و نیوز پورٹل کے مدیران ان باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں چوری چاہے پیسے کے ہو یا کسی چیز کی یا لفظوں کی چوری چوری ہوتی ہے۔ ایسے نہیں ہے کہ قلمکار کی تحریر کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہر چیز کی قیمت اسے پتہ ہوتی ہے جو اس کا جاننے والا ہو۔ لوہار کو ہیرے و موتی کی قمیت کیا پتہ، میرے ساتھ کچھ ایسا واقعہ پیش آیا گزشتہ روز لازوال جموں اردو اخبار میں میرا آرٹیکل راشد علی یوسف رضا نام کے شخص نے اپنے نام سے شائع کروا دیا اور اسے فیس بک وغیرہ پر پھیلا کر خوب داد وصول کرلی، میری نظر پڑھتے ہی میں بھانپ گیا کہ یہ میرا مضمون ہے جو میں نے جماعت اسلامی کی نشہ مخالف مہم کے دوران لکھا تھا جو 5 اکتوبر 2018 کو مضامین ڈاٹ کام اور انقلاب ممبئی میں شائع ہوا تھا اور بہت سے پورٹل پر بھی شائع ہوا تھا، میں نے ایڈیٹر کو اس بارے میں مطلع کیا اور صحافیوں کو اس بارے میں مسیج کیا تو وہ شخص پھر بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا جب میں نے اخبار کے تراشے سینڈ کیے اور پھر تمام ساتھیوں نے اسے کال کرنے شروع کردیے تب اس نے کسی کی بھی کال رسیو نہیں کی، ایسے مضامین سارقوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے یہ لوگ نیوز پورٹل پر سے باآسانی آرٹیکل کو کاپی کرلیتے ہے نیوز پورٹل کے مدیران کو چاہیے کہ وہ پورٹل کو سیکورٹی فراہم کریں۔

ایسا ہی واقعہ فضیل احمد ناصری صاحب جو بہت ہی زبردست قلمکار ہے کے ساتھ بھی گزشتہ سال پیش آیا تھا اس معاملے کو ایڈیٹرز اور قلمکار حضرات نے سنجیدگی سے حل کرنا چاہیے کیونکہ ایک ادیب کی میراث مال و دولت، زمین و جائیداد نہیں ہوا کرتی اس کی میراث کتابیں اس کی تحریریں ہوا کرتی ہے اس لیے ان بدماش ضعیف العقل سارقوں پر منظم طریقے سے کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو ایسی حرکت کرتے ہوئے شرم تک محسوس نہیں کرتے اور نا ہی معافی مانگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).