بلوچستان میں سر عام توہین عدالت


پی ایس ڈی پی کے حوالے سے ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہو رہی ہے۔

بلوچستان ایک ایسا صوبہ جہاں پر حکومتی معاملات رشتہ داریوں اور دوستیوں کی نذر کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے خراب نظام کو مزید خراب کیا جا رہا ہے۔ ہر حکومتی افسر یہ سمجھنے لگا ہے کہ تعلقات کی بنا پر وہ اپنے افسر کی بات نہ مانے تو اس کی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اگر وہ توہین عدالت کرے تو وہ محفوظ رہ سکتا ہے۔

بلوچستان میں کل پی ایس ڈی پی کی غیرقانونی تشکیل کے حوالے سے ہائی کورٹ میں سماعت ہوگئی۔ جس میں درخواست گزار نے صوبائی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات نہ ماننے کی پاداش میں صوبائی حکومت کے اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے زیر سماعت اس مقدمے میں ہائی کورٹ متعدد بار آرڈر پاس کر چکی ہے لیکن بظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ یا تو عدالت نے حکم جاری نہیں کیا یا پھر پی انیڈ ڈی عدالتی کو ماننے سے انکاری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومتی اہلکار عدالتی فیصلے کو خاطر میں نہیں لاتا جب کہ حالت یہ ہے کہ چیف سیکریٹری بلوچستان کے دفتر میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کے تحریری حکم کی مکمل طور پر خلاف ورزی کی گئی۔ جس میں مصطفی اپیکس کیس میں سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ پارلیمنٹیرین کو ترقیاتی عمل میں حصہ نہ دینے اور ان کو ترقیاتی سکیموں سے مکمل طور پر دور رکھا جائے لیکن یہاں پر اعلی سطحی دفتر میں سپریم کورٹ پاکستان کے تحریری احکامات کو پاؤں تلے روندا گیا اور ارکان اسمبلی کو بلا کر ان کی نئی اسکیمات اور سفارشات اور نے پی سی ون لے کر ان سکیمات کو از سر نو شامل کیا گیا ہے۔

بلوچستان ہائی کورٹ نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے لا انیڈ آرڈر، ایجوکیشن، صحت اور پبلک ہیلتھ کے شعبوں کے علاوہ کسی بھی شعبے میں پی ایس ڈی پی میں شامل اسکیمات پر کام روکنے کا حکم دیتے ہوئے اس کو غیر قانونی عمل قرار دیا لیکن مزے کی بات ہے کہ عدالت عالیہ کا ایک اور حکم موجود ہے جس میں بلوچستان کے وزیراعلی کے صوابدیدی فنڈز کو مکمل طور پر غیر قانونی قرار دیا گیا تھا لیکن عدالت عالیہ کے حکم کو بالاے طاق رکھتے ہوئے وزیراعلی پیکچ کے نام سے موجودہ پی ایس ڈی پی سے مختلف اضلاع اور ڈویژن کو وزیراعلی پیکجز کے نام پر اربوں روپے جاری کیے گئے ہیں جو کہ خلاف قانون ہے۔

یہی نہیں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ بلوچستان نے وزیراعلی معائنہ ٹیم کی ان سفارشات جن میں مختلف سکیمات کے زمین پر وجود نہ ہونے کی تحریری طور پر نشاندہی کی تھی اور متعلقہ محکموں سے رقم کی ریکوری کی سفارش کے ساتھ ان منصوبوں کو مزید رقم جاری کرنے سے بھی پی اینڈ ڈی کو تحریری طور پر منع کیا تھا لیکن پی انیڈ ڈی نے اس طرح کی سفارشات کو ردّی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اس طرح کی اسکمیات کو نئی ریلیزز کی ہے۔

عدالت نے بھل صفائی اور انفرادی اسکیمات کو بھی غیر قانونی قرار دیا تھا لیکن پی انیڈ ڈی میں موجود شیر کے بچوں نے عدالت کے احکامات کو خاطر میں نہ لاتے ہونے بھل صفائی کے نام پر کروڑوں روپے جاری کیے۔ جس میں اکثر ایک وزیر کے حلقے میں ایریگیشن کے گریڈ 18 کی ایکسین کی پوسٹ پر تعینات گریڈ 17 کے جونیئر اہلکار کو بھی جاری کیے کیے ہیں۔ بارکھان کے حوالے سے سی ایم آئی ٹی نے پی اینڈ ڈی کو رپورٹ دی تھی کہ پائپ ڈالنے کے نام پر محکمہ زراعت نے نہ صرف کاغذی سکیم کی حد تک کام کیا ہے بلکہ اسکیم کا زمین پر وجود نہیں ہے۔

لہذا متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور ان سے رقم کی واپسی کے ساتھ ساتھ ان کو غیر قانونی کام کرنے پر نشان عبرت بنایا جائے۔ لیکن ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانے کے بجائے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سجاد بھٹہ نے اپنے دستخطوں سے ڈھائی کروڑ مزید اس اسکیم کے لئے ریلیز کردیے ہیں۔ عدالتی حکم کے بعد چیف اکانومسٹ کی سربراہی میں پی این ڈی نے ایک کمیٹی بنائی جس نے تقریبا سات سو سکیمات جو کہ پی ایس ڈی پی میں شامل تھیں کو قانونی جب کہ دیگر کو غیر قانونی قرار دیا تھا اس کے باوجود لوکل گورنمنٹ، سی اینڈ ڈبلیو، انرجی ڈیپارٹمنٹ کو اربوں روپے ریلیز کیے گئے ہیں۔

تقریبا ایک محتاط اندازے کے مطابق پی ایس ڈی پی میں شامل اسکیمات میں آدھے سے زیادہ کی رقوم جاری کی گئی ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عدالت عالیہ اپنے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی نہ بنا سکی تو نچلی عدالتوں کے لئے انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ عام آدمی کو حکومت کے خلاف انصاف پر مبنی کیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے مجبور کرسکے اس سلسلے میں انہوں نے تجویز دی ہے کہ پی ایس ڈی پی میں عدالتی احکامات پر کس قدر عمل کیا گیا اور کس قدر خلاف قانون اقدامات اٹھائے گئے۔

یہ جاننے کے لئے عدالتی کمیشن بنایا جائے جو کہ سیکرٹری فنانس سے جاری کی گئی رقوم کا ریکارڈ طلب کرے اور پی اینڈ ڈی کے خلاف قانون ریلیز کرنے والے افسران کو بھری عدالت میں ہتھکڑیاں لگا دے تاکہ عدلیہ کے عدالتی احکامات کا تقدس برقرار رکھا جا سکے نہیں تو حکومت وقت کسی بھی عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کرے گی۔

ماں کے علاج کے لئے معاشرے کے ایک فرد کی نجی ملکیت کی سائیکل چوری کرنے والا چور بھی عدالت میں سماعت کے دوران موجود ہے اور ڈر کے مارے سوچ رہا ہے کہ کہیں توہین عدالت نہ ہوجائے اور اگر وہ یہ گستاخی کر دے

اور یہ سوال اٹھائے کہ ان کا کیا قصور تھا کہ جس کو وزیراعلی کے صوابدیدی فنڈ سے عدالتی فیصلے سے قبل ماں کے علاج کے لئے ملنے والے پیسے عدالتی حکم پر تو بند کردیں گے جب کہ اربوں روپے کی بندربانٹ تو جاری ہے اور دل میں وہ شکوہ کررہا ہے کہ وزیراعلیٰ کے صوابدیدی فنڈ سے غریبوں کی بیماری کے علاج کے لئے کم از کم تیس سے چالیس فیصد لوگ جو کہ حقیقی حقدار ہوتے تھے کو تو کم از کم زندہ رہنے کے لئے کوئی رقم مل جاتی تھی بالکل اسی طرح لاچار طلباء کو تعلیمی وظائف ملتے تھے اس پر تو پابندی لگا دی گئی اور اربوں روپے کے معاملے میں عدالتی احکامات ٹوکری میں ڈال دیے گئے ہیں۔ اگر نہیں تو وزیر اعلی پیکج کے نام سے اربوں روپے جاری کرنا وزیر اعلی کا صوابدیدی فنڈ نہیں تو کیا ہے؟

وہ سوچ رہا ہے اور اس کے ذہن میں اس طرح کے مزید سارے سوالات جنم لے رہے ہیں

لیکن بچارا توہین عدالت کے ڈر سے صُمٌّ بُکْمٌ ساکت کھڑا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).