اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے کمزور پوائنٹس


احتساب اور نیب کی کارروائی کی صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری نے کالعدم تنظیموں کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کے بعد نیب میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں اس موضوع پر مزید سخت بیان دیا ہے۔

بلاول نے کہا کہ ”کالعدم تنظیموں کے خلاف ایکشن کی بات میں نہیں مانتا، ہم یہ بار بار کہتے آ ئے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کیے جانے کی بات ہم نہیں مانتے، آپ کہتے ہو کارروائی کی گئی ہیں، میں نہیں مانتا، آپ کہتے ہوآپ نے اریسٹ کیا ہے، میں کہتا ہوں کہ نہیں آپ نے ان کو ’پرو ٹیکٹیو کسٹڈی‘ میں ڈالا ہے تا کہ انڈیا کا جہاز ان کو نہ اڑا دے، آپ کہتے ہو کہ آپ نے ان کے بنک اکاؤنٹس ’فریز‘ کیے ہیں، مجھے کیا پتہ، میں کیوں یقین کروں، اور کس قسم کے ’فریز‘ ہیں یہ، جس طرح مشرف کے بنک اکاؤنٹس ’فروزن‘ تھے جب اس نے پیسہ نکالا تھا، تو اگر آپ اپوزیشن کی سپورٹ چاہتے ہو تو آپ نے اپنی ’سیریس نیس‘ دکھانی ہے، آپ نے اپوزیشن کو ’آن بورڈ‘ لینا ہے، انگیج کرنا ہے اور ’بلڈ دی کانفیڈنس آف دی اپوزیشن‘ ۔ “

کالعدم تنظیموں کا موضوع اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک حساس اور نازک مسئلہ ہے۔ حکومتی موقف کے مطابق ان تنظیموں کے خلاف ہندوستان میں دہشت گردی کرنے کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں دیے گئے تاہم اس کے باوجود ان تنظیموں کے خلاف کارروائیوں سے پاکستان پر عالمی دباؤ کی صورتحال واضح ہو تی ہے۔ کالعدم تنظیموں کے معاملے میں پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر تادیبی کارروائیوں کے خطرات کی صورتحال اسٹیشیبلشمنٹ اور ملکی سیاست کے درمیان عدم اتفاق متعلقہ خطرات کی نوعیت کو سنگین تر کر دیتا ہے۔

عالمی سطح پر پاکستان کی طرف سے اس معاملے پر کیا موقف اختیا ر کیا جاتا ہے اور کیا کیا تسلیم کیا جاتا ہے، اس سے قطع نظر ملک کے اندر بھی حکومت اس موضوع پر یکسونظر نہیں آتی اور یہ معاملہ بدستور بے یقینی، الجھاؤ اور پوشیدگی کے لبادوں میں لپٹا نظر آتا ہے اوراس متعلق پالیسی کا دفاع ملک میں سیاسی طور پر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

کئی سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے خلاف مختلف مالیاتی الزامات میں تادیبی کارروائیوں کو سیاسی انتقام سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے بھرپور ’سٹینڈ‘ لینے کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اپنے رہنماؤں کے خلاف تادیبی کارروائیوں پرپیپلز پارٹی کی طرح سخت ردعمل کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں ّ آ سکا۔ بیانات بھی ایسے کہ جنہیں آسانی سے ”کلام نرم و نازک“ قرار دیا جا سکتا ہے جو ”مرد ناداں“ پہ کسی بھی طور اثر انداز ہونے کے خطرات کا موجب نہیں ہو سکتا۔

آج پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی مخالف قوتوں کے ایک ایسے نازک پوائنٹ کو چھیڑا ہے جس سے مخالف قوتوں کی بالادستی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ جس وقت مسلم لیگ (ن) نے کالعدم تنظیموں کے معاملے کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی کوشش کی تھی، اس وقت پیپلز پارٹی کے لئے کالعدم تنظیموں کا معاملہ ترجیحات میں اتنا اہم نہ تھا جتنا اب نظر آ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ’چار و ناچار‘ اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کی کوشش سے فرار کی راہوں کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اپنے لئے خود ”سو جوتے سو پیاز“ کی سزا کا انتخاب کیا جائے۔ کچھ بعید نہیں کہ جلد ہی عوام کو یہ تصویر دیکھنے کو ملے جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنما مولانا فضل الرحمان کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوں۔

اس وقت تک ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس امید سے دامن چھڑانے کو تیار نظر نہیں آتیں کہ ”حکومت سے“ ملکی مفاد میں ”خیر سگالی“ کی اپیلوں سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان دو طرفہ احترام اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اپوزیشن ملک کو چلانے کے موجودہ نئے نظام کو قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے فی الحال ان اپیلوں پر توجہ کا ردعمل ظاہر نہیں کیا جا رہا ہے۔ اسٹیشلشمنٹ اور حکومت کا یہ واضح عزم مستحکم نظر آ رہا ہے کہ کرپشن، مالیاتی بے ضابطگیوں کے خلاف سخت ترین کارروائیوں سے ملک میں سیاست کی نئی بنیادیں تعمیر کی جائیں۔

پرانے پاکستان کی تاریخ سے وابستہ سقوط مشرقی پاکستان کی مثال سامنے ہے کہ ملک کو سیاسی انتشار کی بھینٹ چڑھانے سے بڑا نقصان کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ملک میں ہم آہنگی، بھائی چارہ، اتحاد، مساوات اور انصاف قائم کرنے کے مقاصدکے حوالے سے ”اسٹیبلشمنٹ“ کا ”کردار“ تاریخ میں نمایاں طور پر درج کیے جانے کے قابل ہے۔ یہ کردار اس کے حق میں ہے یا مخالفت میں، یہ بھی نمایاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).