بزرگوں کا تبرک لمبی زندگی دیتا ہے


کسی کے بستر پر بکھری ہوئی کتابیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو خواب کم دیکھتے ہیں، کتاب زیادہ! اُس بستر پر بھی کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ کمرے میں ایک کرسی تھی اور ایک میز۔ ان پر بھی کتابیں دھری تھیں۔ ایک الماری تھی، وہ بھی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ مجھے وہ کمرا اپنا اپنا سا لگا۔ لیکن میں اُس کمرے میں گھستے ہوئے جھجھک رہا تھا۔ بڑے صاحب کچھ لکھنے میں مگن تھے۔ میں کھنکارا لیکن وہ متوجہ نہ ہوئے۔ پھر عمر صاحب نے قریب جاکر ان کے کان میں زور سے کہا، ’’مبشر صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ یہ صحافی ہیں۔ آپ کی طرح جنگ میں لکھتے ہیں۔‘‘

بڑے صاحب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر مجھے اشارے سے اندر بلایا۔ ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کو کہا۔ ’’آپ کو اِن سے ذرا بلند آواز میں بات کرنا ہوگی۔‘‘ عمر صاحب نے کہا۔ وہ بڑے صاحب کے پوتے ہیں۔ ماشا اللہ پوتے صاحب مجھ سفید بالوں والے سے عمر میں زیادہ ہیں۔ بڑے صاحب یعنی محمد احمد سبزواری، اللہ انھیں سلامت رکھے، 102 ویں سال گرہ مناچکے ہیں۔ وہ اب بھی جنگ میں معیشت کی جھلکیاں کے عنوان سے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ بڑے عہدوں پر رہے ہیں اور ان کے تراجم اور طبع زاد مضامین کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔

میں نے مختصر ملاقات میں زیادہ لب کشائی نہیں کی۔ اس کا فائدہ نہیں تھا۔ لیکن بڑے صاحب کے پاس سنانے کو کئی مزے کی باتیں تھیں۔ میرے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھی تو اس کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ میں نے اپنی کتاب پیش کی تو اس پر تبصرہ کرنے کا وعدہ کیا۔ مجھ سے ایک ڈکشنری کے بارے میں کچھ سوالات بھی کیے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ لغات سے متعلق کچھ تحقیقی کام کررہے ہیں۔ 102 سال کی عمر میں تحقیقی کام؟ اللہ اللہ!

مجھے یاد ہے کہ تیس پینتیس سال پہلے جب ہم خانیوال میں رہتے تھے تو محلے کی خواتین ہماری دادی کی اُترن مانگنے آتی تھیں۔ وہ ان کی اُترن نومولود بچوں کو اس امید اور دعا کے ساتھ پہناتی تھیں کہ انھیں بھی دادی اماں کی طرح سو سال کی زندگی ملے۔ میں بڑے صاحب سے ان کی اُترن کیا مانگتا۔ اٹھتے ہوئے بس اتنی درخواست کی کہ اپنی کتاب پر دستخط کردیں۔ سبزواری صاحب کے چہرے پر سجی ہوئی خوب صورت مسکراہٹ چند لمحات کے لیے غائب ہوئی اور انھوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا، ’’میں دستخط کروں گا تو آج کی تاریخ لکھوں گا۔‘‘

مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ بڑے صاحب نے میرا نام لکھ کر دستخط کیے اور تاریخ لکھی، 12 ستمبر 2016

آغا صاحب، یعنی آغا ناصر کی تمام کتابیں میرے پاس تھیں۔ اور ہر کتاب پر ان کے دستخط بھی۔ لیکن دو ہفتے پہلے اردو بازار میں ان کی ایک نئی کتاب نظر آئی۔ اس کا نام ہے، آل اباؤٹ ٹیلی وژن۔ ٹی وی کیا ہوتا ہے، کیسے چلتا ہے، کون کون لوگ اس میں کام کرتے ہیں، کیسے کام کرنا چاہیے، اس بارے میں یورپ اور امریکا میں سیکڑوں کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اچھی اچھی دس بارہ کتابیں میرے پاس بھی ہیں۔ پاکستان میں اس بارے میں ایک دو کتابیں ہی چھپی ہیں لیکن بس، ان کا حال اور معیار نہ پوچھیں۔

آغا صاحب کی زندگی ٹی وی میں گزر گئی۔ ان سے زیادہ ٹی وی کون جانتا ہے۔ ان کی یہ کتاب تمام یونیورسٹیز کو فوراً اپنے نصاب میں شامل کرلینی چاہیے۔ دلچسپ بات سنیں، میں اردو بازار میں دکان دکان پھرا۔ کہیں ایک سے زیادہ کاپیاں نہیں ملیں۔ ویلکم بک پورٹ پر ایک کتاب تھی، میں نے خرید لی۔ فضلی سنز پر بھی ایک ہی تھی، وہ بھی خرید لی۔ فرید بک سیلرز پر بھی فقط ایک پائی۔ میں نے اسے بھی نہیں چھوڑا۔
میں کراچی میں رہتا ہوں اور آغا صاحب اسلام آباد میں۔ اب کیا کریں؟ چلیں اُن سے تو جب ملاقات ہوگی، تب ہوگی لیکن میں کیوں نہ اِس پر کسی بڑے صحافی کے دستخط کروالوں۔ ٹی وی جرنلزم کی دنیا میں سب سے بڑا کون ہے؟

میں نے ایک کاپی جیونیوز کے ایم ڈی اظہر عباس صاحب کی خدمت میں پیش کی اور دوسری کا پہلا صفحہ کھول کر اُن کے سامنے رکھا۔ کہا کہ اِس پر دستخط کریں۔ اظہر صاحب بے تکلفی کی اجازت نہیں دیتے۔ بھنویں سکیڑ کے بولے، میں کیوں دستخط کروں؟ آغا صاحب سے کرواؤ۔ میں نے کہا، ہاں اُن سے بھی کرواؤں گا۔ کراچی نہ آئے تو اسلام آباد جاکر کرواؤں گا۔ لیکن آپ بھی کردیں۔ انھوں نے میری درخواست مان لی۔ ایک اچھا سا جملہ لکھ کر دستخط کردیے۔ وہ اچھا سا جملہ یہ تھا کہ مبشر! لکھتے رہو۔

عمار مسعود صاحب سے نئی نئی دوستی ہوئی ہے۔ فیس بک اچھی جگہ ہے۔ اچھے دوستوں سے ملاتی ہے (اور بروں کو بلاک کرنا کا آپشن دیتی ہے)۔ عمار صاحب محترم انور مسعود کے صاحب زادے ہیں۔ انور صاحب بڑے آدمی ہیں۔ تھوڑے سے بڑے نہیں، بہت بڑے۔ اردو، پنجابی، فارسی، کئی زبانوں میں اعلیٰ شاعری کرتے ہیں۔ تحقیق کا کام بھی کرتے ہیں۔ استاد ہیں اور پڑھاتے رہے ہیں۔ اخبار کے لیے قطعہ بھی کہتے ہیں۔

انور صاحب صرف مزاحیہ شاعری نہیں کرتے، باتیں بھی دلچسپ کرتے ہیں۔ بولتے جاتے ہیں اور ہنساتے جاتے ہیں۔ میں کئی ادبی میلوں میں ان کے سامنے بیٹھ کر گھنٹا گھنٹا بھر ہنستا رہا ہوں۔ عمار صاحب بھی دلچسپ شخصیت ہیں۔ جنگ میں کالم لکھتے ہیں۔ افسانوں کی کتاب چھپ چکی ہے۔ ٹی وی سے گہرا رشتہ رہا ہے۔ فیس بک پر قیامت کی فقرے بازی کرتے ہیں۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ دوستی بعد میں بڑھاتے رہیں گے۔ ایک کام یہ کردیں کہ میرے پاس انور مسعود صاحب کی کئی کتابیں ہیں۔ ان پر دستخط کروادیں۔ عمار صاحب نے وعدہ کرلیا۔ میں نے انھیں کتابیں بھیج دیں۔ یوں کتابیں گئیں اور یوں آگئیں۔ انور صاحب کی مہربانی کہ ہر کتاب پر میرا اور اپنا نام ساتھ ساتھ لکھا۔ میں نے چار کتابیں بھیجی تھیں۔ انھوں نے پانچویں خود تحفتہ بھیجی۔

یہ جو میں کتابوں پر دستخط کرواتا پھرتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ آج میں راز کھول دیتا ہوں۔ عقیل عباس جعفری صاحب سے پوچھیں، پروفیسر سحر انصاری صاحب سے پوچھیں، راشد اشرف صاحب سے پوچھیں۔ انھیں قیمتی کتابیں، دستخط شدہ کتابیں فٹ پاتھوں سے اور ٹھیلوں سے مل جاتی ہیں۔ لوگ افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ نئی نسل نے اپنے بزرگوں کی کتابیں سنبھال کر نہیں رکھیں۔ میں کہتا ہوں، نئی نسل اچھا کرتی ہے کہ کتابیں بیچ دیتی ہے۔ اِس طرح وہ کتابوں سے محبت کرنے والوں، کتابیں جمع کرنے والوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔

کون جانتا ہے کہ میرے بعد میری کتابیں کہاں پہنچیں گی۔ لیکن جہاں بھی پہنچیں گی، بڑے ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور تاریخ دانوں کی کتابوں پر اُن کے دستخطوں کے ساتھ لکھا ہوا میرا نام بھی لوگوں کو یاد رہے گا۔

اتفاق دیکھیں، منگل کو انور مسعود کی دستخط شدہ کتابیں مجھے ملیں اور منگل ہی کو ایکسپریس میں انور مسعود صاحب کا یہ قطعہ شائع ہوا:

اُس نے کہا کہ بول، تیرا مدّعا ہے کیا
میں نے بھی اُس سے بات بہت صاف صاف کی
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میری بیاضِ دل
ہے کب سے منتظر ترے آٹوگراف کی

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments