اور کچھ نہیں تو ساحل کی قدر ہی کر لو!!


کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بے گھر انسان پر کیا گزرتی ہے! سعدیؔ کے پاس جوتے نہیں تھے۔ سفرکر رہے تھے شاکی اورنالاں ! راستے میں دیکھا کہ ایک مسافر کا پائوں ہی نہیں تھا! شکر بجا لائے کہ پائوں تو سلامت ہیں! باپ گھر بناتا ہے: پیسہ پیسہ جوڑ کر! جوانی اور بڑھاپے کی ہڈیوں کا سفوف‘ گارے میں مکس ہوتا ہے تب مالِ حلال سے مکان بنتا ہے۔

پھر بیٹے‘ بیٹیاں‘ پوتے ‘ نواسے‘ اس میں نقص نکالتے ہیں! یہ کمرہ فلاں جگہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ یہ برآمدہ مناسب نہیں! باپ خاموشی سے سنتا ہے! دل میں ہنستا ہے۔ جماعت اسلامی کے فراموش شدہ شاعر نعیم صدیقی نے کہا تھا ؎ یہ لاالہ خوانیاں جائے نماز پر!! سُولی پہ چڑھ کے نغمہ یہ گاتے تو جانتے کہ تم کبھی بنائو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ سو میں بیس کتنے ہوتے ہیں اور آٹے دال کا بھائو کیا ہوتا ہے!

وطن بھی مکان کی طرح ہے! وہ شخص جس کے پھیپھڑے تپ دق سے مسموم ہو چکے تھے۔ ایک پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا۔ کانگرس اور برٹش حکومت اس کی استقامت کے سامنے عاجز آ گئے۔ وطن ظہور پذیر ہوا پھر ایک دن خاموشی سے اس نے بیماری کے سامنے ہتھیار ڈالے اور دنیا سے رخصت ہو گیا! اب سپوت‘ سارے نہیں‘ مگر کچھ‘ کپوت بنے پھرتے ہیں! کیوں بنایا؟غلط بنایا!

حیرت ہوتی ہے ڈاکٹر مبارک علی جیسے دانش وروں پر۔ پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ تقسیم ان کے نزدیک غلط تھی۔ پھر بھی پاکستان میں بیٹھے ہیں! ارے بھئی! بھارت سے آنے کی کیا ضرورت تھی! منطق تو یہی پوچھتی ہے کہ اگر غلط بنا تھا تو آپ یہاں کیوں مکین ہیں؟ مسلمان تارکین وطن جب میزبان ملکوں میں جا کر شریعہ لا مانگتے ہیں تو انہیں یہی تو کہا جاتا ہے کہ آپ کو دعوت نامہ دیکر یہاں بلایا تو نہیں تھا! کیوں آ گئے؟

چشمِ تصور سے نیوزی لینڈ کے حادثے کو دیکھیے! جو زندہ ہیں‘ وہاں کس ذہنی حالت میں رہ رہے ہوں گے؟ان سے پوچھیے‘ وطن کتنی بڑی نعمت ہے! وطن!!جہاں آپ سے کوئی پاسپورٹ نہیں مانگتا! جہاں آپ کی زبان سب سمجھتے ہیں! جہاں آپ کا رنگ کروڑوں ہم وطنوں کے رنگ جیسا ہے۔ آپ ہجوم میں الگ نہیں لگتے! آپ توجہ کا مرکز نہیں بنتے۔

آپ سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کہاں سے آئے ہیں؟ پیچھے سے کہاں کے ہیں؟ باپ کی پیدائش کہاں ہوئی تھی؟آپ اپنے گائوں جاتے ہیں یا پرانے شہر کی گلیوں کو پلٹتے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے آپ کا باپ کون تھا؟ دادا کون تھا؟ قصبے کی ایک ایک اینٹ کی تاریخ سب کو معلوم ہوتی ہے! ’’کس محلے کے ہو؟‘‘ ’’اچھا!تم فلاں کے پوتے تو نہیں؟‘‘ ’’کس گائوں سے ہو؟‘‘ ’’اچھا‘ تمہارے نانا کا نام یہ تھا؟‘‘ آپ کی جڑیں آپ کی مٹی میں ہیں۔ آپ کا تنا مضبوط ہے۔ آپ کی شاخیں سبز اور پتے سرسبز ہیں!

تارکین وطن کے بیٹے جو پیدا ہی امریکہ برطانیہ ناروے اور آسٹریلیا میں ہوئے۔ وہ تو گملوں میں اُگے درخت ہیں! جتنے بھی بڑے ہوجائیں‘ تنا مضبوط نہیں ہو سکتا! رنگ سے جان نہیں چھوٹتی! مذہب کو کمبل سمجھ کر پھینکنا بھی چاہیں توکمبل نہیں چھوٹتا! بوسنیا اورکسووو کے مسلمان کون سے باعمل مسلمان تھے؟ کسی نے نہ پوچھا کہ مسلک کیا ہے؟ کس امام کو مانتے ہو، نماز ہاتھ چھوڑ کر پڑھتے ہو یا باندھ کر! بکروں کی طرح لٹا کر ذبح کئے گئے۔

نصرانی عورتوں نے قیدی مردوں کے پیٹ ٹوٹی ہوئی بوتلوں کے نوکیلے ٹکڑوں سے پھاڑے! اس بھارتی مسلمان کا جواب کبھی نہیں بھولتا جس سے آسٹریلیا کی ایک مسجدمیں پوچھا کہ بھارت میں مسلمانوں کا مجموعی احوال کیسا ہے! کہا‘ اچھا ہے‘ پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور اضافہ کیا کہ…’’اقلیت میں ہیں!‘‘ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ۔ اقلیت میں ہیں۔ کئی کتابوں پر بھاری ہے!

بھارتی مسلمان سے پوچھیے پاکستان کی کیا قدروقیمت ہے! صرف یوپی کا وزیر اعلیٰ ہی کافی ہے یہ باور کرانے کے لئے کہ پاکستان کتنی بڑی نعمت ہے!فیض صاحب کی بیٹی کو اور آپا کشور ناہید کو ویزے نہ دیے۔ نہیں دیکھا کہ روشن خیال ہیں! بس پاکستانی اور مسلمان ہونا کافی تھا!!

تارکین وطن کو ملزم یا مجرم نہیں گردانا جا سکتا! جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے‘ ہجرت اس کے ساتھ ساتھ ہے! آدم نے جنت سے ہجرت کی! موسیٰ علیہ السلام نے مصر چھوڑا۔ سرکار ﷺ نے مکہ کوخیر باد کہا اور یوں خیر باد کہا کہ فتح مکہ کے بعد بھی اہل مدینہ کو نہ چھوڑا۔ کرۂ ارض کی تاریخ ہجر اور ہجرتوں سے اٹی پڑی ہے!

چینی کہاں کہاں نہیں گئے۔ امریکہ کے مغربی ساحلوں سے لے کر انڈونیشیا اور ملائشیا تک! آج کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کی دوسری سرکاری زبان ہی پنجابی ہے! کینیڈا کا وزیر دفاع سکھ ہے۔ مسلمان تارکین وطن کو مطعون کرنا قرین انصاف نہیں! وہ طعن و تشنیع کے نہیں‘ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ دعائوں کے محتاج ہیں!

ہاں یہ بات اپنی جگہ پتھر پر لکیر ہے کہ وطن کا کوئی نعم البدل نہیں! اپنی مٹی کہیں اور نہیں مل سکتی! سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ آپ دوسروں سے الگ نہ دکھائی دیں! آپ اُن لاکھوں کروڑوں میں سے ایک ہوں جو آپ جیسے ہیں! آپ کو اقلیت کوئی نہ کہے! اپنا گریبان کتنا نزدیک ہوتا ہے مگر جھانکتے وقت کتنا دور لگتا ہے!

سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا تھا کسی کی ماں بیٹی دیکھی تو اپنی ماں بیٹی یاد آئی پھر غالب کا شعر پڑھا اور یوں اطلاق کیا کہ سننے والے عش عش کر اٹھے ؎ ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا!

جنہیں ہم پاکستان میں اقلیت کہتے ہیں‘ ان سے معاملات کرتے وقت ان پاکستانیوں اور مسلمانوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے جو نیوزی لینڈ میں ہیں‘ اور ان دوسرے ملکوں میں جہاں کے پاسپورٹ ان کی جیبوں میں ہیں مگر یہ پاسپورٹ انہیں دوسرے مکینوں کے ہم رنگ اور ہم مذہب کرنے سے قاصر ہیں!

ہمیں سوچنا ہو گا کہ سندھ میں ہمیشہ نوجوان ہندو لڑکی ہی کیوں اسلام’’قبول‘‘ کرتی ہے؟ مرد اور بوڑھی عورتیں کیوں نہیں مسلمان ہوتیں؟مغربی ملکوں میں مسلمان‘ عملاً اقلیتیں ہیں مگر کم از کم سرکاری طور پر انہیں اقلیت نہیں قرار دیا جاتا! ہم جب فخر سے کہتے ہیں کہ برطانیہ کا وزیر داخلہ یا لندن کا میئر پاکستانی نژاد اور مسلمان ہے تو کیا ہم غیر مسلموں کو اپنے وطن میں ایسے مناصب دینے کے لئے برضا و رغبت آمادہ ہیں؟

وطن میں بیٹھ کر۔وطن کی قدر ہوتی ہے نہ غریب الوطنی کا درد سمجھ میں آتا ہے! حافظ شیرازی کا شعر اس سیاق و سباق میں حرف آخر ہے ؎ شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابی چنین حائل کجا دانند حالِ ماسبک سارانِ ساحل ہا رات کالی ہے! لہروں کا خوف دامن گیر ہے! سامنے بھنور ہے! وہ جو ساحلوں پر بیٹھے موج مستی کر رہے ہیں انہیں ہمارے حال کا کیا اندازہ!! ساحل پر بیٹھے والو! اور کچھ نہیں تو ساحل کی قدر ہی کر لو۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).