عدالتوں نے کبھی بھی لیڈروں کو جنم نہیں دیا ہے


مقننہ اورعدلیہ کا تعلق کسی بھی ملک میں چولی دامن کے مانند ہوتا ہے، جہاں پر عوام کے منتخب نمائندے ملک کے بہتری اور عوام کے فلاح و بہبود کے لئے قوانین اور آئین بناتے ہیں جس کے تحفظ کے لئے عدلیہ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ عدلیہ کے پاس اس بات کا بھی اختیار ہے کہ وہ مقننہ کو اس بات سے روکیں کہ کوئی قانون آئین کے خلاف نہ بنایا جائے جس میں عوامی بنیادی حقوق سلب ہوتے ہوں جبکہ عدلیہ کا نظام اور طریقہ کار بذات خود مقننہ تعین کرتی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں عدلیہ اور مقننہ کا تعلق چوہے اور بلی کے کھیل جیسا رہا ہے۔ کئی منتخب عوامی نمائندے عدالتوں سے نا اہل قرارپائے تو بعض ’عدالتی قتل‘ کو بھی پی گئے ہیں، جبکہ دوسری جانب عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے دوران مقننہ یا حکومت جو کردار ادا کرتی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ من پسند افراد کو تعینات کرنے کے لئے ہر قسم کی سنیارٹی کو نظر اندا ز کیا جاتا ہے تاکہ من پسند فیصلے ہی لئے جاسکے۔

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں پارلیمنٹ کئی بار تحلیل ہوئی ہے، کئی بار حکومتی سربراہ عدلیہ کے ہاتھوں گھر روانہ ہوا ہے اور بعض مواقعوں پر عدالتوں کو بھی ’تحلیل‘ کردیا گیا ہے جن مواقعوں پر ’پی سی او‘ کو متعارف کراکے ججوں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں جبکہ ان مواقعوں میں عدلیہ کے اختیارات اور طریقہ کار وضع کرنے والا آئین بھی معطل رہا ہے۔

پاکستان کے عدالتوں سے منتخب نمائندوں اور حکومتوں کے خلاف فیصلے اور ریمارکس اتنی ہی لمبی تاریخ رکھتے ہیں جتنی بذات خود ان کی ہوگی۔ پاکستان کی پہلی آئینی اسمبلی اس وقت کے گورنر جنرل نے تحلیل کردیا تھا جس کے خلاف اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین نے عدالت سے رجوع کیا اور چیلنج کردیا، عدلیہ نے اس کیس کا فیصلہ سپیکر اسمبلی کے خلاف، گورنر جنرل کے حق میں سنادیا۔ اس تاریخی اور مستقبل کی راہیں متعین کرنے والے فیصلے میں سوائے ایک جج کے علاوہ تمام ججز نے گورنر جنرل کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اقدام کی حمایت کی اور نظریہ ضرورت کو دوام بخشا۔ جبکہ عدالت سے اب تک سب سے آخری سزا پانے والوں میں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد اور تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف ہیں جبکہ درمیانے عرصے میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات بھی اس کہانی کا شکار بنے رہے ہیں۔

مقننہ یا پارلیمنٹ کی اپنی کارکردگی اور کوتاہیاں بھی اس حوالے سے تلخ ہیں جن کی وجہ سے اسمبلی کا وقار دیگر اداروں کی نسبت کم ہورہا ہے۔ 2013 کی اسمبلی میں 70 کے قریب ایسے ممبران کی نشاندہی کی گئی جنہوں نے پانچ سالہ دورانیے میں کوئی بھی قرارداد پیش کیا اور نہ ہی کسی بھی بحث میں حصہ لیایا گریز کیا بلکہ پرہیز کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے ریمارکس ریکارڈ پر ہیں جب انہوں نے سینیٹ میں سوال پوچھا تھا کہ مقننہ اور عدلیہ میں برتر کون ہیں؟

سیاستدانوں، منتخب نمائندوں یا حکومتوں کو اپنے قابو میں لانے کے لئے عدلیہ کے پاس ایک ایسا ہتھیار بھی موجود ہے جسے جس وقت جہاں چاہیں پھینکا جاسکتا ہے جس کے کامیابی کے امکانات 100 فیصد سے بھی زیادہ ہیں جسے عام طور پر ’آرٹیکل 62,63‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس آرٹیکل کا آج تک صحیح استعمال ریکارڈ پر موجود نہیں ہے جبکہ اس کے کندھے استعمال کرتے ہوئے دیے گئے ریمارکس نے 99.99 فیصد لوگوں کو جھوٹا اور مکار بھی قرار دیدیا ہے۔ یہی نہیں ناپسند عوامی نمائندوں کی گردن ہمیشہ اس تلوار کے نیچے ہی آجاتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار بھی اپنی نوعیت کے انوکھے چیف جسٹس گزرے ہیں اور تاریخ میں بھی انوکھے ہی قرار دیے جائیں گے کہ جن کے دور میں جزاءاور سزاءسے زیادہ ریمارکس اور ’مہمات‘ نے توجہ حاصل کرلی اور بذات خود ان کی توجہ ریمارکس دینے پر زیادہ رہی ہے، اپنے اس کارکردگی کی وجہ سے میاں ثاقب نثار آج بھی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالتوں سے نا اہلی کی سزا پانے والے اکثرسیاستدانوں کو عوامی طور پر بھرپور پذیرائی ملی ہوئی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں خوردبین کی نظر سے اس بات کو ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ مولوی تمیز الدین کیس کی سماعت کس نے کی تھی لیکن مولوی تمیز الدین کانام اس معاملے میں ہمیشہ کے لئے امر ہوکررہ گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو اب تک ’زندہ‘ نہیں ہوتے اگر اس کا عدالتی قتل نہیں ہوتا تو۔ اسی طرح دیگر سزایافتہ افراد بھی آج معاشرے میں اپنے مقام کے مطابق عزت کے حامل ہیں لیکن ان ججوں کا کسی کو پتہ نہیں ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے بانی میاں محمد نواز شریف کی موجودہ ملکی سیاسی صورتحال میں مقام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

گلگت بلتستان میں وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن پر پیپلزپارٹی کے سابق ڈپٹی سپیکر جمیل احمد نے دعویٰ دائر کیا تھا کہ وزیراعلیٰ جعلی ڈگری کے حامل ہیں۔ 2009 کے انتخابات میں ٹیکنوکریٹ کی نشست کے لئے وزیراعلیٰ نے ایک ایسی ڈگری جمع کرائی جس کو ماننے کے لئے وہ خود بھی تیار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن سے لے کر عدالتوں میں گزشتہ چار سالوں تک یہ کیس پھر تا رہا۔ 30 اگست 2018 کو اپنی مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہونے والے سپریم اپیلٹ کورٹ جی بی کے چیف جسٹس رانا شمیم نے اس کیس کو اپنی ذاتی مفادات کے لئے جس انداز میں استعمال کیا ہے شاید اس کی نظیر پوری دنیا میں نہیں ملتی ہوگی۔

اپنی مدت ملازمت کے آخری روز انہوں نے رات 12 بجے کے قریب اس کیس کو سماعت کی فہرست میں شامل کردیا۔ مذکورہ کیس اس سے قبل اسی عدالت سے مسترد ہوچکاتھالیکن اپنی مدت ملازمت کے اختتام سے کچھ روز قبل انہوں نے اس کیس پر سوموٹو ایکشن لیا۔ رانا شمیم کے اس کیس میں مفادات صاف ستھرے تھے تاہم ڈویژنل بنچ کے دوسرے جج کی عدم دستیابی یا غیر حاضری کی وجہ سے وہ فیصلہ نہیں دے سکے۔ پھر اسی جج، جو رانا شمیم کے آخری سماعت میں غیر حاضر تھے، نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز سماعت کی فہرست میں شامل کرکے اس کیس کو دوبارہ مسترد کردیا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما جمیل احمد کو راقم نے مشورہ دیا تھا کہ عدالت سے حفیظ الرحمن کے خلاف لڑنے کی بجائے عوامی طاقت کی بنیاد پر لڑے لیکن انہوں نے اس مشورہ میں وزن نہیں دیکھا۔ اب جب کیس عدالت میں دائر تھا تو وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو بھی چاہیے تھا کہ وہ بھرپور طریقے سے کیس لڑتے اور اس طرح مدت ملازمت کے آخری روز سماعت میں شامل کرکے فیصلہ نہ لیتے کیونکہ عدالتوں نے کبھی بھی لیڈروں کو جنم نہیں دیا ہے بلکہ عدلیہ کے امداد سے راستے روکے گئے سیاسی لیڈروں کو کم و بیش ہمیشہ ہی اہمیت حاصل ہوتی رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).