ہولی ہے بھئی ہولی ہے


دنیا کے تمام جشن ہی حسین اور دلکش ہوتے ہیں۔ یہ فیسٹیول، میلے، تہوار ہی زندگی کی سچی اور اصلی حقیقتیں ہیں۔ انسان کی زندگی کلرفل ہونی چاہیے۔ رنگوں کی وجہ سے ہی انسان کے جذبات میں محبت، امن، پیار اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے اس لئے ہولی، کرسمس اور عید جیسے تہوار کا انسانی زندگی میں ہونا بہت اہم ہے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ہولی ہندوؤں کا تہوار ہے یا عیسائیوں کا۔ لیکن ایک بات جانتا ہوں کہ اس تہوار میں رنگ، خوشی، رقص، نغمے اور زندہ دلی ہے۔ میں ایک بات جانتا ہوں کے ہزاروں انسان ہولی کے تہوار یا فیسٹیول کے موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر مختلف اقسام کے خوبصورت رنگ پھینکتے ہیں، قہقہے بکھیرتے ہیں، مسکراتے ہیں، نغمے گاتے ہیں اور یہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔

عید ہو یا کرسمس یا پھر ہولی، انسان ازحد خوشی کو انجوائے کرتا ہے۔ فطری احساس میں رنگ جاتا ہے۔ کھل کر جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے تہواروں کے موقعوں پر انسان فطری جبلت میں رنگ جاتا ہے۔

آج کے جدید انسان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے کہ وہ خوفناک حد تک سنجیدہ ہوچکا ہے۔ وہ شخصیت بن چکا ہے، اس کی زندگی میں مقاصد ہیں اور وہ بھی ہمالیہ پہاڑ جیسے۔ ان مقاصد کے پیچھے دوڑ دوڑ کر وہ مرجاتا ہے لیکن زندگی کے حسین لمحات سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ فیسٹیول کی خوبصورتی یہ ہے کہ انسان چند لمحات کے لئے غیر سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ کسی خوف کے بغیر کائنات میں قہقہے بکھیرتا ہے اور یہی قہقہے ہی انسان اور انسانیت ہیں۔

کاش انسانوں کی زندگی کا ہر لمحہ ہی ہولی کے رنگ میں رنگا ہو۔ ہر دن ہی عید جیسا ہو، ہر لمحہ ہی کرسمس کی خوشیوں جیسا ہو۔ ایک دوسرے سے نفرت، تعصب اور جنگ و جدل کرنے کی بجائے انسان ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ ایک دوسرے کے تہواروں کا حصہ بنیں۔ ایک دوسرے کو عید کے تحفے دیں، ایک دوسرے پر رنگوں کی برسات کریں۔ ایسا ہوگا تو پھر کہیں قتل و غارت نہیں ہوگی، جنگ و جدل نہیں ہوگی، تعصب اور نفرت نہیں ہوگی، صرف انسانوں کی اس زمین پر پیار، امن اور محبت و خوشحالی ہو گی۔

ایک دوسرے کی زندگی کا سہارا بننا ہے تو انسانوں کو ایک دوسرے کے فیسٹیول میں شریک ہونا ہوگا۔ کائنات محبت، پیار اور جشن کا پیغام دے رہی ہے۔ اس کائنات میں انسان جہاں کہیں بھی دیکھے گا اسے رنگ ہی رنگ نظر آئیں گے۔ رقص ہی رقص نظر آئے گا، نغمے ہی نغمے سنائی دیں گے۔ پھول ہی پھول مہکتے کھلتے نظر آئیں گے۔ کسی بھی تہوار کی دلکشی یہی تو ہے کہ انسان کائنات کی دلکشیوں اور رنگینیوں میں کھوجاتا ہے۔ وہ کچھ لمحوں کے لئے نظریات، خیالات، نام نہاد اخلاقیات اور ضابطوں سے کٹ جاتا ہے اور کائنات کی حسین زندگی بن جاتا ہے۔

انہی تہواروں کی وجہ سے ہی انسان کچھ لمحوں کے لئے فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہوجات ہے۔ کیا کبھی ہم انسانوں نے اس فطرت کا غور سے مشاہدہ کیا ہے؟ یہ کائنات ہر لمحہ رقص وسرود میں ہے۔ موسیقیت سے لبریز ہے، ں غموں سے اٹکی پڑی ہے۔ فطرت کے ہر رنگ میں جشن ہے۔ پھول کھل رہے ہیں، خوشبو سے زمین کو معطر کررہے ہیں، کونپلیں پھوٹ رہی ہیں، درخت بڑھوتری کے عمل سے گزر رہے ہیں، ان کے پتے ہوا سے رقص کررہے ہیں اور کائنات میں ٹھنڈک پیدا کررہے ہیں۔

پرندے آسمان پر پرواز کررہے ہیں اور نغمے گن گنا رہے ہیں، سورج زمین کو روشنی مہیا کررہا ہے، چاند اور ستارے فطرت کے حسن میں دلکشی کے جلوے بکھیر رہے ہیں، آسمان اور زمین کے اس لو آفئیر میں دلکشی اور خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ اس کائنات کے جشن و رقص میں ایک لمحے کے لئے بھی وقفہ نہیں آتا، یہ جشن نان سٹاپ ہے۔ ہم بھی اس کائنات کا لازمی حصہ ہیں، ہم انسان کیا کررہے؟ کیا کبھی ہم نے سوچا؟ کیا کبھی ہم نے دیکھا کہ پرندوں اور درختوں کی جنگ ہو ئی ہو؟

کیا کبھی ہم نے زمین و آسمان کے درمیان جنگ و جدل کی کیفیت دیکھی؟ پھر ہم انسان ہی کیوں جنگ و جدل کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا قتل عام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم محبت، امن، پیار سے دور ہیں۔ ہم جشن نہیں مناتے۔ مقاصد کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ ذات پات میں تقسیم ہیں۔ مذاہب و فرقوں میں تقسیم ہیں۔ قوموں، نسلوں اور معاشروں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی بقاء کی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔

کیوں بھول گئے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں اور ہماری پہچان صرف اور صرف انسانیت ہے۔ انسان کی زندگی میں بھی کائنات کی طرح جشن کی محفلیں نان سٹاپ بنیادوں پر سجیں گی تو تب ہی اس زمین سے نفرت، تعصب، انتہا پسندی، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ ہم مسلمان، ہندو، عیسائی ہیں لیکن انسان نہیں۔ کاش ہم مسلمان، ہندو اور عیسائی ہونے کے ساتھ ساتھ کائنات کے خوبصورت انسان بھی ہوتے۔ کائنات کی فطرت کے ہر احساس، ہر جذبے اور ہر سانس میں تازگی ہے سوائے انسانوں کے۔

اسی وجہ سے جنگیں ہورہی ہیں، انسان مررہے ہیں، کائنات بدصورت ہورہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے، نفرت کا ہمالیہ بڑھتا جارہا ہے۔ کاش انسان بھی ان پرندوں جیسا ہوجو بے نیاز ہوکر آسمان پر پروازیں کررہے ہیں، نغمے گا رہے ہیں، کوئی آسمان پر نیچے پرواز کرتا ہے تو کوئی آسمان کی بلندیوں پر پرواز میں بدمست ہے لیکن کبھی یہ لڑتے نہیں۔ سب کائنات کی مستی میں مست ہیں۔

ہنسنا، مسکرانا، جشن منانا، ایک دوسرے پر رنگوں کی بارش کرنا، نغمے گنگنانا اور ڈانس کرنا پاگل پن نہیں، بے وقوفی بھی نہیں اور غیر سنجیدگی بھی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو کائنات کے رنگ ایسے نہ ہوتے۔ آگ کے جلتے شعلے میں بھی حسن ہے، زندگی اورتوانائی ہے۔ ابلتے پانی میں بھی نغموں کی سرسراہٹ ہے، بہتے پانی میں بھی موسیقیت ہے۔ کیا یہ موسیقیت انسان اور انسانیت میں ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کا کون ذمہ دار ہے؟ کسی بھی تہوار کو، کسی بھی فیسٹیول کو، کسی بھی مذہب سے مت جوڑیئے، اس کا تعلق کائنات سے جوڑیئے، پھر دیکھیے زندگی کس قدر حسین و دلکش نظر آتی ہے۔ تہوار کو بہار سے جوڑیئے، کائنات سے جوڑیئے، فطرت کے ساتھ اس کا رشتہ دیکھیے۔ دیکھیں یہاں وہاں ادھر ادھر لاکھوں انسان ایک دوسرے پر رنگوں کی بارش کررہے ہیں، رنگوں کے ساتھ مستی کررہے ہیں، بچے کھیل رہے ہیں، ناچ رہے ہیں، خواتین مسکرا رہی ہیں، ان کی مسکراہٹ اور خوبصورتی دیکھیے۔

محسوس کیجیئے۔ کیا یہ خوبصورتی ہے یا بدصورتی؟ کیا یہ ہولی کی شرارتیں انسانیت کے لئے خطرناک ہیں؟ کیا اس سے انسانیت میں مسائل پیدا ہورہے ہیں؟ رنگ و نسل اور مذہبی نقطہ نظر سے بلند و ارفع ہو کر اور ایک کائناتی انسان کے روپ میں دیکھیں گے تو خوشی محسوس کریں گے۔ بس صرف نقطہ نظر میں کائناتی پہلوؤ لانے کی ضرورت ہے۔ اگر بھارت یا نیپال یا پاکستان کے علاقے سندھ میں یا بلوچستان و پنجاب میں ہولی کے تہوار پر رنگ بکھر رہے ہیں۔

گلی محلوں میں قہقہے ہیں تو اس خوشی کو انجوائے کریں۔ کچھ انسان اگر کچھ لمحوں کے لئے پریشانیوں اور مسائل سے آزاد ہو کر اپنی مستی میں مست ہیں تو ان کی خوشی میں دکھ کی بجائے خوشی کا احساس لانا چاہیے۔ جب انسان رقص میں رنگ جاتا ہے تو کائنات بھی اس کی اس سرگرمی کا حصہ بن جاتی ہے لیکن ہم انسان ایک دوسرے کے تہواروں اور فیسٹیول کے دشمن بنے بیٹھے ہیں

ہر تہوار میں امن، محبت اور ہمدردی کا جذبہ جنم لیتا ہے اور نفرت و تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے، اس لئے انسانوں کو ایک دوسرے کے تہواروں کی عزت کرنی چاہیے۔ یہ تہوار، عیدیں، ہولی، کرسمس، دیوالی، یہ ختم ہو گئے اور ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تو یہ زمین جہنم بن جائے گی۔ کائنات بدصورت ہو جائے گی۔ ہم انسانوں کے پاس خوش رہنے کے کڑوروں مواقع ہیں لیکن ہم ان خوبصورت مواقعوں کو نفرت و تعصب کا رنگ دے کر تباہ کررہے ہیں۔

جشن میں شاندار توانائی ہے، تخلیقی قوت ہے اس لئے ان قہقہوں کی راہ میں رکاوٹ مت بنیئے۔ ان کوعام کیجیئے۔ ان کا حصہ بنیئے اور زندگی کو دلکش بنایئے۔ دنیا کے انسانوں کی ہر تہذیب، کلچر اور سوسائیٹی میں تہوار آتے ہیں۔ یہ چند دن ہوتے ہیں، جشن و محبت کے ان چند دنوں کو تو تحمل و برداشت سے گزاریں۔ اگر یہ دن بھی ہماری اناؤں کا شکار ہو گئے تو پھر انسانی زندگی کا ہر لمحہ وحشت، خوف، نفرت اور تعصب کا منظر پیش کرے گا اور پھر چاروں اطراف جلی کٹی لاشیں ہی ہوں گی اور ان لاشوں کی بدصورتی میں ہم انسان غرق ہوتے رہیں گے۔

کرنے دیجئے انہیں شور شرابہ، یہ شور شرابہ نہیں، یہ زندگی کا حسن ہے۔ یہ روشنیاں، یہ خوشیاں اور یہ رنگ ہی زندگی ہیں۔ یہ ہوں گی تو ہم انسان تخلیقیت کو انجوائے کرسکیں گے، یہ ہوں گی تو انسانوں کی زمین خوشبو سے معطر ہو گی، یہ ہوں گی تو محبت اور امن پیدا ہوگا۔ یہ ہوں گی تو انسان کی نشوونما کا عمل جاری و ساری رہے گا۔ یہ ہوں گی تو انسان خدا کی قربت کو انجوائے کرسکے گا۔ کاش انسان بھی درختوں، پرندوں، دریاؤں، سمندروں، سورج، چاند ستاروں جیسا ہوتا لیکن ہم تعصب، نفرت اور تقسیم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ہم معذور ہیں، نظریات اور خیالات میں الجھے ہوئے ہیں۔ مذہبی تفریق میں پاگل ہوئے ہوئے ہیں۔ شرائط اور پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے دیواریں اورسرحدیں بنالی ہیں اس لئے ہم ڈانس کرنا، قہقہے بکھیرنا اور جشن منایا بھول گئے ہیں۔ وہ انسان جو جشن نہیں منا سکتا، موسیقی نہیں سن سکتا، رقص نہیں کرسکتا، نغمے نہیں گا سکتا وہ کیا انسان ہے؟ وہ تو ایک بدصورت ریگستان جیسا ہے۔ آج کے لئے اتنا ہی۔ بے ہنگم اور بے ترتیب کہانی کو انجوائے کریں۔ آج جشن ہے، آج ہولی ہے، آج میری کہانی بھی مستی و سرود میں پاگل پن کا شکار ہے۔ اس لئے آج اس بے ترتیب کہانی کو برداشت کیجیئے۔ ہولی ہے بھئی ہولی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).