کنیز کی قسمت: کراچی کی ایک کال گرل کی زندگی


”نہیں جی! اس۔ ۔ ۔ (گالی دے کر) نے پورا بندوبست پہلے سے کیا ہوا تھا۔ مجھے رنچھوڑ لائن کے علاقے میں ایک بہت پرانے ہوٹل میں لے آیا جہاں اس نے مجھے بیوی ظاہر کر کے کمرہ لیا۔ ادھر ہم دو دن ٹھہرے مگر اس دوران اس نے میرے ساتھ کوئی نازیبا حرکت نہیں کی۔ کہتا تھا جب ہم نے شادی کرنی ہے تو پھر تیری معصومیت کو داغدار کر کے میں تمھاری اور اپنی نظروں میں گرنا نہیں چاہتا۔ مگر یہ بھی اس کمینے کی کاروباری چال تھی “ ۔

”وہ کس طرح؟“

”اگر وہ مجھے داغدار کر دیتا تو پھر میری قیمت گر جاتی جس کا نقصان اسے ہونا تھا“ یہ جملے بولتے ہوئے کنیز نے سر جھکا لیا جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اتنے خراب حالات سے گزرنے کے باوجود اس کے اندر کی عورت ابھی مری نہیں تھی۔

تیسرے دن اس نے مجھے بتایا کہ کام مل گیا ہے اور ساتھ میں رہنے کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ شام کو ہم لوگ ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک بڑے سے گھر میں آئے جہاں ایک عورت مجھے دیکھتے ہی بے تابی سے آگے بڑھی اور مجھے گلے لگا کر پیار کیا لیکن مجھے اس عورت کی چال ڈھال، ہار سنگھار اور انداز و اطوار دیکھ کر پریشان ہو رہی تھی اور میرے اندر سے آواز آرہی تھی کہ گڑبڑ کی ابتدا اسی وقت ہو گئی تھی جب میں نے اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اب واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا، سفیر جیسا بھی تھا، مجھے اس کے ساتھ زندگی بتانی تھی۔ اب تک اس کے شریفانہ برتاؤ سے میں اس کی گرویدہ ہو چکی تھی۔ بہرطور مجھے وہ عورت ایک کمرے میں لے آئی جہاں میز پر کھانے پینے کی اشیا چنی ہوئی تھیں۔ اس نے اصرار کر کے مجھے کھانے پر مجبور کیا۔ جب گھنٹہ بھر اس طرح گزر گیا تو میں نے سفیر کا پوچھا کہ وہ کدھر ہے۔ اس عورت نے مجھے کہا کہ وہ کام کے سلسلے میں ایک صاحب کے پاس گیا ہوا ہے اور مجھے فکرمند نہ ہونا چاہیے۔

یہ بھی میرا ہی گھر ہے۔ مگر مجھے فکر کیسے نہ ہوتی؟ جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میری گھبراہٹ بڑھ رہی تھی۔ وہ عورت مجھے آرام کرنے کا کہہ کر خود باہر نکل گئی۔ اس نے اپنے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ میں نے تھوڑی دیر بعد باہر نکلنا چاہا تو پتا چلا دروازہ باہر سے لاک ہے۔ اس طرح دروازے کے ساتھ ساتھ میری قسمت بھی لاک ہو گئی۔

کنیز نے وقفہ دے کر پھر بولنا شروع کیا۔

”آپ نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ آپنے لوگوں کے نام تبدیل کر دیے ہیں، مگر برائے مہربانی میرا اصل نام لکھیے گا تاکہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں، کل وہ میری کہانی سے بھی واقف ہو جائیں۔ اب مجھے اپنی بدنامی کا کوئی خوف نہیں۔ عورت کی عزت ایک بار خراب ہوتی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ یہ مضمون پڑھنے والی لڑکیاں میری کہانی سے عبرت پکڑیں۔ اگر ان کی زندگی میں بھی سفیر جیسا کوئی کمینہ آ گیا ہے تو اسے پہچان لیں اور میری غلطی نہ دہرائیں۔ میں آپ کو بتا رہی تھی کہ دروازہ باہر سے بند تھا جو کہ شام کو میرے شور مچانے پر اسی عورت نے کھولا۔ اس کا چہرہ بگڑا ہوا تھا اور اس نے آتے ہی مجھے ڈانٹنا شروع کر دیا۔

”بی بی! یہ بڑے لوگوں کا گھر ہے۔ شور مچا کر ہمیں بدنام نہ کرو۔ تیرا بندہ ایک لاکھ روپے نقد و نقد لے کر تجھے ہمارے حوالے کر گیا ہے۔ زیادہ ٹرٹر کرو گی تو ایک کے بجائے دس بندے کمرے میں بھیج دوں گی“ ۔

اس کی باتوں سے مجھے ایک دم چکر آ گیا کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا ہے؟ سفیر نے یہ کیسی ”سفارتکاری“ دکھائی تھی مجھے؟ میرے رونے دھونے اور منت کا اس عورت اور اس کے دوسرے ساتھیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا جو میری چیخ و پکار پر وہاں جمع ہو گئے تھے۔ عورت جسے سب ”آپاں“ کہہ رہے تھے، اس نے علونامی ایک شخص کو کہا کہ اس کو ترکیب نمبر تن (تین) سے زیر کرو۔ اس پر علو اور اس کے دو ساتھیوں نے ایک دم مجھے پکڑ کر گرا دیا اور میرے دونوں بازو پیچھے موڑ کر میرے دوپٹے سے باندھ دیے۔

دوسرے کپڑے کی پٹی میرے منہ سے لگام کی طرح گزار کر باندھ دی جس سے میری آواز بھی بند ہو گئی۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے مردے کی طرح اٹھا کر بیڈ پر پٹخ دیا اور رسی سے وہاں باندھ دیا گیا۔ میرے بازو میری پشت پر بندھے ہونے کی وجہ سے میں بہت تکلیف میں تھی مگر ان ظالموں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور مجھے ایسے ہی چھوڑ کر کمرہ بند کر کے چلے گئے۔ 12 سے 15 گھنٹے میں اسی طرح پڑی رہی۔ بھوک، پیاس اور جسمانی تکلیف سے رات میں کسی وقت بے ہوش بھی ہو گئی مگر بجلی چلے جانے پر گرمی سے میری آنکھ کھل گئی۔

اس گھر میں مجھے ایک ہفتے تک رکھا گیا جس کے دوران دو دو وقت تک بھوکا رکھا جاتا، ناشائستہ حرکات کی جاتیں۔ آخرکار دسویں دن کنیز فاطمہ کو ایک ”بڑے آدمی“ کی کنیز بنا کر اس کا ”دسواں“ کر دیا گیا۔ اس آدمی نے 4 دن تک مجھے ذلیل کیا۔ جس کے بعد ”آپاں“ کے مرد ساتھیوں کی باری آئی۔ ان حرامیوں نے اس دوران مووی بھی بنائی تاکہ آئندہ بھی مجھے بلیک میل کر سکیں۔ بعد میں جب میں ان کے بقول ”سیدھے راستے“ پر آگئی تھی تو ایک دن موقع پا کر وہ مووی میں نے چرا کر ضائع کر دی تھی۔ مگر میرے بعد کے جو دو سال گزرے ہیں، اس میں میری اتنی ”فلمبندی“ ہوئی ہے کہ کسی ٹاپ کلاس ہیروئن نے بھی اتنی فلمیں نہیں بھرائی ہوں گی۔ اس طرح فلموں میں کام کرنے کا میرا شوق تو بہرحال پورا ہو گیا ۔

کنیز کے آخری جملے میں جو کاٹ تھی، اس کے آگے نئے بلیڈ کی دھار بھی کچھ نہ تھی۔

”اب میں رہتی تو کورنگی میں ہوں مگر میرا اٹھنا بیٹھنا ڈیفنس، کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس میں ہوتا ہے“ ۔ ”آپاں“ اور اس کے گروہ سے ایک سال کے اندر میں نے اپنے تعلقات کے زور پر نجات حاصل کر لی تھی۔ نہ صرف اتنا بلکہ ان کو کراچی سے بھاگنے پر بھی مجبور کر دیا تھا۔ اس دوران چھپ چھپا کر دو مرتبہ گاؤں کا چکر لگا آئی ہوں مگر کسی سے ملنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ صرف دور دور سے ایک بہن کو دیکھا۔ ابا کا میرے واقعے کے ایک سال بعد انتقال ہو گیا تھا۔

بھائی دوسرے شہر شفٹ ہو گئے تھے۔ ایک بہن ہے جو گاؤں ہی میں بیاہی گئی ہے، وہ اب تک وہاں رہتی ہے۔ ماں کا سایہ بچپن سے اٹھ گیا تھا۔ مجھے یہ بھی پتا چلا کہ میرے والد اور بھائی نے میرے گھر سے بھاگنے کی ”رپٹ“ درج نہیں کرائی تھی اور نہ ہی دور پاس کے عزیزوں کو اس واقعے سے متعلق خبر ہونے دی گئی تھی۔ عزیز رشتہ داروں کولاہور میں میری شادی کرا دینے کا بتایا گیا تھا۔ لیکن سمجھنے والے پھر بھی سمجھ گئے تھے۔ علاقے میں ہونے والی سرگوشیوں سے والد صاحب بھی واقف ہو گئے تھے اور اسی صدمے سے وہ جان سے گزر گئے ۔

”آپ کا اب کیا سلسلہ ہے؟ آپ کہہ رہی تھیں کہ آپ بہت جلد کراچی چھوڑ رہی ہیں؟“

”ہاں دیکھو کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو آپ کے یہ دوست اپنا دوسرا گھر آباد کرنے کی فکر میں ہیں۔ میں انھیں سمجھاتی رہتی ہوں کہ پاگل! اتنی ہمدردی کرو جتنی ہضم ہو سکے۔ تمھیں اس سماج میں جینا ہے جہاں میرے دن رات سب پر عیاں ہیں۔ بہرحال اتنا ہے کہ اب میں کس کی پابند نہیں رہی۔ اس لیے یہ خواہش ہے کہ اس شناخت کو یہاں دفن کر کے نئے نام اور نئے چہرے کے ساتھ کسی دوسرے شہر میں زندگی گزارنے کی کوشش کروں“ ۔

”مگر پلاسٹک سرجری تو بہت مہنگا نسخہ ہے۔ نیا چہرہ کس طرح حاصل کریں گی آپ؟“ میں نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔

”میں اتنی انتہا تک نہیں جانا چاہتی۔ اس کے علاوہ دو سال میں اتنا کما لیا ہے کہ چہرے کے ساتھ ساتھ اگر ذہن و دل بدلنے کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی afford کر سکتی ہوں اور میرا حلقہ احباب اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اس میں کوئی تو پلاستک سرجن بھی ضرور ہو گا۔ بس ڈائری دیکھنے کی دیر ہے۔ سب کے نام اور کام لکھ رکھے ہیں مَیں نے۔ نجانے کس وقت کس کی ضرورت پڑ جائے۔ ہمارے کام میں تو Professional Hazards بھی زیادہ ہوتے ہیں نا!“

”میں تو سمجھتا ہوں کہ آپ نے پروفیشنل کا لفظ اضافی لگایا ہے۔ صرف Hazards ہی Hazards ہیں“ ۔
”ہاں واقعی“ کمرے کی محدود گنجائش میں اس کی ہلکی ہنسی گونج اٹھی۔ اگر ہنسی کا کوئی رنگ ہوتا ہے تو اس وقت وہ اس کے چہرے پر پیلا پن بن کر جھلک اٹھا تھا۔
۔ ۔

شبیر سومرو کراچی کے ایک عامل صحافی ہیں۔ وہ شاعر، ادیب، فوٹوگرافر اور ڈاکیومنٹری فلم میکر بھی ہیں۔ اردو اور سندھی میں ان کی نصف درجن کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2