دہشت گردی کی جنگ


دہشت گردی کسی بھی نوعیت کی ہو یا اس کا پس منظر سیاسی، سماجی، علاقائی، لسانی، قوم پرستی یا مذہبی بنیاد ہو اس کی ہر سطح پر یا فریق کی جانب سے نہ صرف مذمت ہونی چاہیے بلکہ اس کے خاتمہ پر سب کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ دہشت گردی کا یہ بیانیہ کہ اس کی بنیاد محض مذہبی یا بالخصوص اسلام کے ساتھ جوڑ کر دیکھی جانی چاہیے، درست حکمت عملی نہیں۔ اس وقت عالمی دنیا میں مسلم دشمن یا مخالف عناصر اس منطق کو بنیاد بنا کر پیش کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اسی بنیاد پر ہمیں مسلم دنیا کے اندر ایک ردعمل کی سیاست کو بھی دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مسلم دنیا کے بڑے اسکالر، مبلغ یا اہل علم افراد دنیا کے سامنے اس نکتہ نظر کو پیش کرتے رہے ہیں کہ عالمی دنیا کو دہشت گردی کا علاج ایک بڑے سیاسی فرئم ورک میں تلاش کرنا ہوگا او راسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے اثرات مسلم دنیا سمیت عالمی دنیا میں بھی سخت ردعمل کے طو رپر سامنے آئیں گے۔

حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی  دو مساجد میں نماز جمعہ کے دوران مسلمانوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کے عمل نے ایک بار پھر عالمی دنیا کی توجہ دہشت گردی جیسے سنگین مسئلہ کی طرف ڈالی ہے۔ اس حالیہ دہشت گردی کو مختلف لوگ مختلف پہلووں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی اسے اسلامو فوبیاکے نام دے رہا ہے تو کوئی اسے سفید نسل پرستی یا نسل پرستانہ عفریت کا نام دے کر مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کررہا ہے۔ بنیادی طو رپر اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نکتہ کو بھی سمجھیں کہ عالمی دنیا میں جو ایک خاص بیانیہ کے تحت مسلم دشمنی کو ابھارا جارہا ہے اور مسلمانوں کو ہر مسئلہ کا ذمہ دار قرار دینے کی جو روش ہے اس سے بھی مسلم دشمنی کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ عالمی میڈیا یا بڑی طاقتیں جس حکمت کے ساتھ مسلم دشمنی کے ایجنڈے کو طاقت فراہم کررہی ہیں اس سے مسلم دنیا سمیت اب خود عالمی سطح پر دیگر ممالک کو داخلی بحران کا سامنا ہے۔

نیوزی لینڈ کا واقعہ یقینی طور پر بڑا واقعہ ہے۔ لیکن اس سے قبل بھی دنیا میں بہت سے ممالک میں ایسی دہشت گردی پر مبنی کارروائیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جس میں غیر مسلم لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک بڑی منطق یہ دی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور جو بھی دہشت گرد ہوتا ہے چاہے وہ انفرادی سطح پر یا کسی گروہ کی شکل میں سامنے آتا ہے اس کی بنیاد انسان دشمنی اور انسانیت کے قتل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسینڈا آرڈرن نے بغیر کسی انتظار کے اس واقعہ کو بدترین دہشت گردی کے طو رپر پیش کیا ہے۔ حالانکہ بلاوجہ اس دہشت گردی کے بارے میں بعض لوگوں کی جانب سے قتل عام کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس سوچ کا بھی سخت ردعمل مسلم دنیا میں دیکھنے کو ملا کہ کیسے عالمی دنیا میں مسلمانوں او راسلا م کے بارے میں ایک خاص تعصب یا فکری تضاد کا پہلو پایاجاتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کا مسئلہ محض مسلم دنیا تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور تمام ممالک کودہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہ دہشت گردی عالمی دنیا کے تضادات سمیت سیاسی، سماجی اور معاشی پالیسیوں یا عدم انصاف پر مبنی نظام سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے عالمی دنیا کی سوچ میں کوئی بھی دہشت گرد ہو او را س کا تعلق کسی بھی ملک، رنگ، نسل، مذہب یا زبان یا قوم سے ہو اس کی کسی بھی سطح پر نہ تو حمایت ہونی چاہیے او رنہ ہی ان کی حمایت میں کوئی بھی ایسا جواز پیش کیا جائے جو بلاوجہ ان کی حمایت کا راستہ نکالتا ہو۔ بنیادی طو رپر دنیا میں ایسے افراد یا گروہ کی کمی نہیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر جنونیت پر مبنی سیاست کا راستہ اختیار کرکے اپنے مخالفین کے خلاف پرتشدد، مسلح جدوجہد او رطاقت کے استعمال سمیت ان میں نفرت، تعصب اور غصہ کے رویوں کو جنم دیتے ہیں۔

یہ جو عالمی سطح سمیت مسلم دنیا میں بھی جنونیت کی سیاست کرنے والے لوگوں کی اپنے سیاسی مفادات کے لیے حمایت یا سرپرستی کی جاتی تھی اس نے اس انتہا پسندی اور دہشت گردی کو طاقت فراہم کی ہے۔ سیاسی، لسانی، علاقائی یا قوم پرستی کے معاملات میں بھی جو انتہا پسندی کا عمل دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بذات خود دہشت گردی کا راستہ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو کوئی دین، قومیت اور کوئی نسل نہیں ہوتی۔ یہ عمل کسی کو بھی دبوچ سکتا ہے او رکسی بھی مذہب یا کسی بھی نسل کے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ مغرب کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مسلم دنیا میں جو انتہا پسندی یا دہشت گردی کا عمل پھیلا ہے اس میں خود ان کی اپنی پالیسیوں کا عمل دخل بھی زیادہ ہے جو خود عالمی دنیا کے لیے بھی خطرہ بن رہا ہے۔

امریکہ سمیت عالمی بڑی طاقتوں کو سمجھنا ہوگا کہ جو عملی مظاہرہ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جیسینڈر آرڈرن نے مسلم دنیا او رمقامی مسلم متاثرین کے ساتھ اختیا رکیا ہے یہ وہی رویہ ہے جو آج عالمی سطح پر ہمیں درکار ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوگی کیونکہ ان کے طرز عمل نے مقامی مسلمانوں سمیت عالمی دنیا میں موجود مسلم دنیا اور عوام کو امید دی ہے کہ عالمی سطح پر سب کچھ خراب نہیں ہے، مگر اس کے برعکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نیوزی لینڈ میں ہونے والی دہشت گردی پر طرزعمل بلاوجہ مسلم دنیا میں ایک انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا کے نسل پرست او رمسلمان مخالف سینٹر فریسرایننگ کا منفی طرز عمل کی بھی کسی بھی سطح پر حمایت نہیں ہونی چاہیے جو اپنی شدت پسندی سے مسلم او رغیر مسلم کے درمیان نفرت کے عمل کو جنم دے رہا ہے۔

اصولی طور پر تو ہمیں عالمی اور علاقائی سطح پر مسلم او رغیر مسلم ممالک سمیت مختلف دہشت گردی سے نمٹنے کے جو بھی سیاسی، انتظامی اور سیکورٹی کے فورمز ہیں ان میں ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ میں کام کرنا چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ جو مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان خلیج ہے یا جو بداعتمادی پائی جاتی ہے وہ مشترکہ حکمت عملی میں رکاوٹ ہیں۔ جب ایک دوسرے کے ملک یا ریاست کو براہ راست دہشت گردی کی سرپرستی کے طو رپر نمٹا جائے گا تو اس سے موثر حکمت عملی یا مشترکہ عمل بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہ جو جنگی جنون کی بنیاد پر یا مسلح جدوجہد کو بنیاد بنا کر ہم مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا متبادل بیانیہ کو ہی طاقت دینی ہوگی کہ ہمیں ہر سطح کے مسائل کا حل سیاست او رسیاسی نظام میں ہی تلاش کرنا چاہیے۔

اس عالمی سطح پر پھیلی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں پانچ کاموں پر توجہ دینی ہوگی۔ اول دنیا کی تمام ریاستوں کو اپنے اپنے داخلی نظام میں انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل پر سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس سے نمٹنے کی موثر، شفاف اور عملی حکمت عملی اختیا ر کرنی ہوگی۔ اس پہلو سے باہر نکلنا ہوگا کہ ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہیں یایہ مسئلہ محض مسلم دنیا کا مسئلہ ہے۔ دوئم ریاستی اور عالمی یا علاقائی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ الزام تراشی کی بجائے تعاون کے امکانات کو ہی اصل طاقت فراہم کرنی ہوگی۔

سوئم عالمی سطح پر ان تمام سیاسی، سماجی او رمعاشی محرکا ت کو سمجھ کر ایک نیا متبادل بیانیہ بنانا ہوگا جو سب میں سیاسی، سماجی او رمذہبی اہم اہنگی کو پیدا کرسکے او رہر طرز کے طاقت کے استعمال اور مسلح جدوجہد یا اسلحہ کے پھیلاؤ کا راستہ روکنا ہوگا۔ چہارم مسلم دنیا کو بھی اس تاثر کی نفی کرنی ہوگی او رخود اپنی داخلی سطح پر کمزوریوں او رسمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل کر دنیا کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ اسلام امن کا مذہب ہے او راس کے لیے علمی اور فکری محاذ پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسلم دنیا کوکسی بھی ردعمل کے نتیجے میں بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔ پنجم مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان مکالمہ، باہمی رابطوں، سماجی و کلچرل اہم اہنگی کو پیدا کرکے ہی اس دہشت گردی پر مبنی نفرت کی سیاست کو ختم کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).