صرف آپ کی بریک کا منتظر


رسول کریم نبی رحیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ کسی کو اپنی سواری پہ بٹھا لینا بھی صدقہ ہے۔ آج کل نفسا نفسی کے دور میں جب ہر شخص مصروفیات کے چنگل میں پھنس چکا ہے جس میں وہ خود سے بھی بیزار نظر آتا ہے کسی کو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل پہ بٹھا لینا معدوم ہوتا جا رہا ہے وہیں اس خوف نے بھی ہمارے دلوں میں جگہ بنا لی ہے کہ کہ کسی انجان شخص کو لفٹ دینا ہمارے لئے کسی خطرے سے خالی نہیں۔

لیکن اس معاملے میں کچھ خوشگوار ترین لمحات بھی ہیں جو میں آپ سب سے شئیر کرنا چاہتا ہوں جنھیں یاد کروں تو آج بھی میرے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں۔

ساتویں کلاس کا سٹوڈنٹ تھا۔ مئی کے دن تھے۔ سکول سے چھٹی کر کے واپس سائیکل پہ گھر آ رہا تھا تو گرمی سے بے حال ایک شخص اور اس کی بزرگ والدہ کو پیدل چلتے دیکھا۔ پسینے سے شرابور شخص نے مجھے کہا کہ میری والدہ کو لیتے جاؤ۔ میں نے کہا میں دوسری سواری بٹھا نہیں سکتا۔ اس نے کہا میں چلاتا ہوں آپ آگے بیٹھ جاؤ میں آگے بیٹھنے سے شرما گیا۔ اس نے کہا آپ گھر کا پتابتا دو ہم یہ سائیکل آپ کے گھر چھوڑتے چلے جائیں گے آپ پیدل آ جاؤ۔ میری والدہ مزید نہیں چل سکتیں۔ میں ڈر گیا کہ امی کو پتا چلا کہ انجان شخص کو سائیکل دے دی تو مار پڑے گی۔ لہذا میں نے گھر کی نشانی سمجھائی اور کہا کہ میرے گھر کے پیچھے ٹاہلی کے نیچے میرے سائیکل کھڑی کر دینا میں آ رہا ہوں لے لوں گا۔

اس بزرگ عورت نے میری پیشانی چومی اور وہ میری سائیکل لیکرچلے گئے۔

میں پریشان ہو گیا کہ وہ میری سائیکل بالکل ہی لے کر نہ چلے جائیں۔ ڈرتا دعائیں کرتا پسینے میں بھیگتا جب گھر کے قریب پہنچا تو اپنی سائیکل دیکھ کر جان میں جان آئی۔

ایک بار میانوالی سے گھر آتے ہوئے ایک شخص نے مجھ سے لفٹ مانگی میں نے اسے بائیک پہ بٹھا لیا۔ اس نے میلہ منڈی سے خریدی ہوئی دو مرغیاں پکڑ رکھی تھیں اور ان کی ٹانگیں کمزور دھاگے سے باندھی تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو کھل جائیں گی، خدا کا کرنا ایسا ہوا پیر پتنگ موڑ پہ ایک مرغی اڑ گئی اس کو پکڑنے کی کوشش میں دوسری بھی پھسل گئی اب تھل کی ریت تھی اور وہ مرغیاں تھیں جو ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں اور ہم تھے جو ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور ساتھ میں خود کو بھی کوس رہا تھا کہ توں تاں ڈے لفٹاں۔

ایک بار کڑکتی دوپہر میں پپلاں پھاٹک کے پاس ایک بزرگ کو چلتے دیکھا میں نے لفٹ کی پیشکش کی جو بابا نے ٹھکرا دی میں نے اصرار کیا تو بابا نے غصے سے میری طرف ہاتھ جوڑ کہ کہا کہ اللہ دا ناں ایا توں میں توں ٹل۔

ہیڈ پکہ کے پاس ایک بزرگ کو بوسکی کی قمیض میں ملبوس سفید تہمند باندھے گاڑی کے انتظار میں کھڑے دیکھا۔ میں نے لفٹ کی پیشکش کی جو چاچا نے قبول کر لی۔ کندیاں موڑ جا کر میں نے پوچھا چاچا جان کہاں جانا ہے اس نے کہا بیٹا جانا تو میں نے میانوالی تھا لیکن تم نے اتنے پیار سے کہا کہ چاچا جی آنا ہے کہ مجھ سے انکار نہیں ہوا۔

اوہ میرے اللہ کیا کہنے۔

کندیاں المعصوم ہوٹل پہ چائے پی اور پھر چاچا جان کو میانوالی والی گاڑی پہ بٹھایا اور اصرار کے باوجود زبردستی کرایہ ادا کیا۔

اکتوبر 2014 کی بات ہے عمران خان کا میانوالی میں جلسہ تھا رش میں میرا دور کی نظر کا چشمہ گر گیا۔ واپسی پہ رات ہو چکی تھی۔ ایک شخص نے لفٹ مانگی میں نے اسے یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ بھائی میری عینک نہیں ہے تم جاگتے رہنا مجھ پہ نہ رہنا۔ پھر کیا ہوا اس شخص نے مجھے راستے میں ان چیزوں سے بھی خبردار کیے رکھا جو سڑک سے کوسوں دور تھیں۔

ایک بار میں چشمہ روڈ سے اپنے لنک روڈ پہ اترا تو ایک شخص کو سامان اٹھائے خانقاہ سراجیہ کی طرف جاتے دیکھا۔ اس نے گھر تک پہنچانے کی استدعا کی۔ میرا گھر چشمہ روڈ اور خانقاہ سراجیہ کی مین آبادی کے وسط میں ہے لیکن اس نے خانقاہ سراجیہ جانا تھا میں نے گھر کے سامنے سے گزر کر تقریبا دو کلومیٹر آگے اسے اس کے گھر تک چھوڑا تو واپسی پہ ایک طالبعلم نے کہا بھائی مجھے مین روڈ تک چھوڑ دیں میرے پیپر کا وقت قریب ہے میں نے میانوالی جانا ہے۔

میں واپسی پہ دوبارہ گھر کے سامنے سے گزر گیا اور اس کو چشمہ روڈ چھوڑا۔ ابھی گھر کے لئے مڑا تھا تو ایک بزرگ نے دوبارہ لفٹ مانگی اور کہا کہ کہ لمبا سفر کر کے آرہا ہے اس لیے اسے خانقاہ سراجیہ اس کے گھر چھوڑا جائے۔ میں تیسری بار پھر گھر کے سامنے سے گزر گیا اور ان کو گھر چھوڑ آیا۔ جب چوتھی بار گھر کے لئے پلٹ رہا تھا تو میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کیونکہ مجھے وہم تھا کہ پھر کوئی مین روڈ تک لفٹ نہ مانگ لے۔ اور اپنی ناں نہ کرنے پہ یقین بھی تھا۔

میانوالی کچہری بازار میں ایک شخص جو میرے ساتھ سوار تھا اسے میں نے کہا آپ اتر جائیں میں آگے نہیں جاتا عید قربان سے دو دن باقی ہیں اس لیے سٹیشن کے عقب میں ٹریفک پولیس چالان کاٹ رہی ہے۔ اس نے کہا تم چلو میں جانوں اور ٹریفک پولیس جانے اور پھر میں نے اسی شخص کے توسط سے پہلی اور آخری بار ٹریفک پولیس کے اہلکار سے چائے بھی پی حالانکہ پہلے دور سے روٹ بدل لیا کرتا تھا۔

میلہ منڈی سے شہباز خیل جاتے ہوئے ایک نوجوان کو لفٹ دی۔ راستے میں ہمیں ایک بائیک نے کراس کیا جس کی پچھلی سیٹ پہ براجمان ایک بزرگ نے کوئی ٹھیک ٹھاک بھاری بھر کم مشین گن اٹھائی ہوئی تھی میں نے نوجوان کو برملا کہا کہ بھائی بزرگ کی عمر دیکھو اور اس کے کام دیکھو۔ وہ مسکرا دیا۔

جب میں نے اسے اس کی بیٹھک کے سامنے اتارا تو وہ مشین گن بردار بزرگ اسی نوجوان کے پہلے ہی منتظر تھے میں نے کہا بھائی آپ اسے جانتے ہو اس نے قہقہہ لگایا کہ یار یہ میرے والد گرامی ہیں تم چائے پیو گے میں نے شرمندگی سے ہنستے ہوئے کہا کہ نہیں مجھے پانی پلا دو۔ اس نے میری بات اپنے والد کو بھی بتائی اور اس نیازی روایات کے امین چاچا نے مجھے زور کی جپھی دی کہ پہلے تو نہیں لیکن اب چائے پی کے ہی جانا۔ کیا یادگار چائے تھی۔

ان یادوں کا ذکر کرنے سے مقصود یہی تھا کہ ضروری نہیں کہ ہر بار آپ کی جیب کٹ جائے یا آپ لٹ جائیں جب ضمیر گواہی دے دے تو لفٹ دے دیا کریں کیوں کہ کوئی خوبصورت یاد، کوئی خوشگوار چہرہ، کوئی مانوس دعا کوئی انمول رشتہ، کوئی محبت بھرا احساس صرف آپ کی بریک لگانے کا منتظر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).