قبایلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم اور ہم سب


پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ جب قبایلی اضلاع کی بات آ جائے، تو وہاں تو جو لوگ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ نہایت غیر معیاری ہے۔ وہاں پہ تعلیم کی شرح کم ہونے کے علاوہ لڑکیوں کی تعلیم نہایت مایوس کن ہے۔ اکیسویں صدی میں اگر ترقی کرنی ہے تو ہر لڑ کی کو معیاری سے میعاری تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ بعد میں اپنے بچوں کی وقت کی مناسبت کے مطابق بہترین پرورش کر سکیں۔ وہا ں پہ تو اور بھی بہت سارے مسایل ہیں لیکن لڑکیوں کو تعلیم کی فراہمی بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو نہایت سنجییدگی سے لینا چاہیے۔

میرا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں پہ تو شاید گھوسٹ گرلز سکولز ہوگے لیکن بہت کم سکول ایکٹیو ہوں گے۔ ہمارے گاؤں، تنائی، اور اس کے ساتہ ملحقہ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی بھی سکول نہں۔ پورے ضلع میں تو نہ کوئی گرلز کالج ہے اور نہ کوئی معیاری سکول۔ یہی حال باقی قبایلی اضلاع کا بھی ہے ما سوا ئے خیبر ایجنسی اور پاڑہ چنار کے، جہاں پہ گرلز کالجز تو ہے لیکن وہاں کی جتنی ابادی ہے، اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ فاٹا کے نام پہ تو ایک یونیورسٹی ضرور ہے لیکن اس یونیورسٹی تک رسائی بہت سارے قبایلی اضلاع کے طلبا کے بس کی بات نہیں کیونکہ اتنے اخراجات تو طلبا نہ برداشت کرسکتے ہیں اور نہ اتنے دور جانا چاہتے ہیں۔ جب وہاں لڑکیوں کے جانے کی بات آ جائے، تو وہاں پر خواتین اساتذہ بھی 2 یا 3 سے زیادہ نہیں۔

ملک کے ہر باشندے کو بنیادی تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن موجودہ حکوت اسی مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے حل کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ قبایلی اضلاع سے جب نمایندگی کی بات آتی ہے، تو وہ بھی بہت کم ہے۔

پی ٹی آئی کے لے بہت سے چیلینجیز میں سے لڑکیوں کی معیاری تعلیم اوراس کی فراہمی سب سے بڑی چیلینج ہوگی۔ لڑکیوں کی تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اچھے اور ہونہار اساتذہ کو ریکروٹ کرنا بھی چیلینج سے کم نہ ہوگا۔

عورت کے عالمی دن کے موقع پر اگر خواتین اگر قبایلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے اواز اٹھاتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ اسی مارچ کو اپنی بنیادی، سماجی، سیاسی، معشرتی اور تعلیمی حقوق کے حصول کے لیے اگر سنجیدگی سے استعمال کیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔

ایسے مسایل کو اجاگر کر نا ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہیں اور اس میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشرے کے ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پاکستان کی وجود سے لے کر ابھی تک اس مسلے کو اگنور کیا جاتا رہا، جو کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا حکو مت حقیقت میں اس مسلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا علاقے کے لوگ بھی اس مسلے کوحل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ ان سب سوالوں کا جواب ہمیں وقت ہی بہتر بتاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیگی کے ساتھ ترجیحی بنیاد پر حل کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).