محسنِ پاکستان کا جھوٹا بت!


”دالبدین ائیر پورٹ پر اترے تو شہر کے درودیوار ہمیں مزید حیران کرنے کے لئے تیار تھے۔ جیسے ہی گاڑیوں میں بیٹھ کر ائیرپورٹ سے نکلے، تو درودیوار پر ہر طرف ڈاکٹر عبدالقدیر کی رنگین تصاویر کے پوسٹر لگے تھے۔ ساتھ نواز شریف کی تصویر بھی لگا دی گئی تھی اور ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر خان کے اس احسانِ عظیم پر ان کی تحسین کی گئی تھی کہ انہوں نے تن تنہا پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ “ آگے چل کر لکھتے ہیں، ڈاکٹر قدیر کی اس خدمت کا سب اعتراف کرتے ہیں کہ وہ یورینئم افزودہ کرنے کی ٹیکنالوجہ پاکستان لائے اور مقامی سائنسدانوں کو اس کی تربیت دی اور مطلوبہ مقدار میں یورینئم افزودہ کر کے بم ساز ٹیم کے شپرد کر دیا۔

مگر بم ڈاکٹر صاحب کی لیبارٹری میں نہیں بنا تھا۔ بم علیحدہ فیکٹری میں تیار کیا گیا۔ یہ کام ایک دوسری ٹیم نے سرانجام دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو آڈٹ کے بغیر جو فنڈز مہیا کیے گئے تھے، ڈاکٹر صاحب نے ان کا ایک بڑا حصہ اپنی تشہیر پر صرف کیا۔ چاغی پہنچ کر ایٹم بم کے خالق کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں۔ جب ہم بم کی تجربہ گاہ یعنی سرنگ کے اندر گئے تو وہاں پر رہنمائی کے فرائض ڈاکٹر اشفاق نے ادا کیے۔ ڈاکٹر قدیر کے لئے بھی یہ سرنگ اسی طرح ان دیکھی تھی، جیسی ہمارے لئے۔

وہ قدم قدم پر بچنے کی کوشش کرتے ہوئے چل رہے تھے۔ انہیں کچھ پتہ نہیں تھی کہ کہاں پر کیا ہوا ہو گا نہ ہی انہیں یہ پتہ تھا کہ بم کی تنصیب کہاں پر ہوئی تھی، ۔ مزید لکھتے ہیں : اب مانیٹرنگ ہال کی سنئے۔ وہاں نصب کمپیوٹروں اور دیگر پیچیدہ آلات کے بارے میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند وزیراعظم کو بریفنگ دے رہے تھے۔ اس بریفنگ کو ڈاکٹر قدیر ہم سب کی طرح غور سے سن رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ ان کے علم میں آیا ہے۔ ”

1974 میں پاکستان آنے کے بعد سے لے کر 1998 میں ایٹمی دھماکوں تک، ڈاکٹر قدیر کسی بھی وقت پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ نہیں بنے۔ کسی بھی مرحلے پر ایٹم بم کی تیاری میں ان کا کردار نہیں تھا۔ ان کا کردار یورینئم کو افزودہ کرنے کا تھا۔ وطن کی محبت میں وہ یورینئم کی ٹیکنالوجی چرا کر لائے۔ اور حکومت پاکستان نے پلوٹونیم کے ساتھ ساتھ یوریئنئم پر کام شروع کر دیا۔ تاہم اسی کی دہائی میں پاکستان ہر دو طرح کی ٹیکنالوجی کے ساتھ ایٹم بم تیار کر چکا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر ایک میٹالرجسٹ ہیں۔ ایٹمی سائنسدان، محسنِ پاکستان، ایٹم بم کے خالق اور دیگر سب القابات خودساختہ ہیں۔ ایٹمی رازوں کی فروخت ایک الگ مضمون ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ تاہم یہ جان لیجیے کہ ایران، لیبیا، شمالی کوریا اور عراق سمیت جس ملک سے بھی ایٹمی توانائی کے حصول کا سراغ ملا، اس کے پیچھے آپ کے یہ نام نہاد محسنِ پاکستان ہی تھے۔ 2004 میں امریکہ نے جب ڈاکٹر صاحب کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو جنرل مشرف نے حقیقتاً ان کی جان بچائی۔ اس میں نہ صرف ڈاکٹر صاحب کا نام آتا بلکہ کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے۔

ڈاکٹر صاحب کی خدمات سے یقیناً یورینئم کی افزودگی کا عمل تیز ہوا، اور پاکستان کو ابتدائی مراحل طے کرنے میں مدد ملی۔ ان کو اس کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے۔ لیکن جو اصل میں ایٹمی سائنسدان تھے، جنہوں نے ایٹم بم بنایا، کمال مہارت سے پہلے ہی تجربے میں بہترین نتائج حاصل کیے اور وہ ہزاروں لوگ اس تیاری میں مطلوب آلات کے حصول میں قید وبند کی صعوبتوں سے گزرے، جان سے گئے ؛ کچھ ذکر ان اصل محسنینِ پاکستان کا بھی ضروری ہے۔
Mar 22, 2019


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2