محسنِ پاکستان کا جھوٹا بت!


ڈاکٹر عبدالقدیر کو پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کا خالق، ایٹمی سائنسدان، محسنِ پاکستان اور نجانے کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم بڑی جلدی مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اور پاکستان ہی نہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہیروپرستی برصغیر کے عوام کے ڈی این اے میں شامل ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی حب الوطنی اور ایٹمی پروگرام میں ان کے اہم کردار کو پہچاننا ضروری ہے، تاہم ریکارڈ کی درستگی اور اصل محسنوں کو جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں پاپولر بیانیے سے ہٹ کر بات کرنا، دلائل سے حقائق کی جستجو کرنا اور ایسی بات کرنا جو نسل در نسل پڑھائی گئے نصابی بیانیے سے مطابقت نہ رکھتی ہو، بڑا مشکل کام ہے۔ یہ تحریر ایسی ہی ایک کوشش ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر نے کراچی یونیورسٹی سے فزکس میں گریجویشن کی اس کے بعد ماسٹرز کی تعلیم کے لئے یورپ چلے گئے۔ جرمنی میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد ہالینڈ سے انجنئیرنگ میں ماسٹرز کیا اور ہالینڈ سے ہی 1972 میں انجنئیرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری انہوں نے میٹالرجیکل انجنئرنگ میں حاصل کی۔ یورنکو گروپ میں ملازمت اختیار کی جہاں انہیں چند سال بعد یورینئیم افزودہ کرنے کے شعبے میں تحقیق کا کام کرنے کا موقع ملا۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام 1953 میں شروع ہوا جس کا واحد مقصد توانائی کا حصول تھا۔ امریکی تعاون سے یہ پروگرام شروع ہوا اور 1954 میں پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن قائم کیا گیا۔ 1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان نے ایٹم بم کی اہمیت کو محسوس کیا۔ اس سے پہلے وزیراعظم بھٹو آسٹریا کے دورے پر پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر منیر احمد سے مل چکے تھے جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی میں کام کر رہے تھے، ڈاکٹر منیر نے بھٹو کو بھارتی ایٹمی بم کی پیش رفت سے بھی آگاہ کیا تھا۔

1972 میں وزیراعظم بھٹو نے ڈاکٹر منیر احمد کو پی اے ای سی کا چئیرمین تعینات کیا اور ایٹم بم کے حصول کے لئے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ ابتدا میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام پلوٹونیم کو افزودہ کر کے ملٹری گریڈ لیول پلوٹونیم کی کاوشوں پر مبنی تھا۔ 1974 میں بھارت کے سمائلنگ بدھا نامی ایٹمی دھماکوں کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر نے وزیراعظم بھٹو کو ایک خط لکھا اور یورئینئم کے ذریعے ایٹم بم کی ممکنہ تیاری کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔

ڈاکٹر منیر اور ڈاکٹر بشیر محمود ہالینڈ جا کر ڈاکٹر عبدالقدیر سے ملے۔ جس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان آ کر بھٹو کو یورینئیم کو افزودہ کرنے کے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر قدیر اپنے ساتھ یورنکو گروپ کی تحقیقات، یورینئم کی افزودگی کے خاکے اور متعلقہ سائنسی معلومات لے کر آئے، جودوسرے لفظوں میں چوری کر کے لائے۔ ہالینڈ میں ڈاکٹر عبدالقدیر پر باقاعدہ مقدمہ بھی چلا اور سزا بھی ہوئی۔ تاہم وطن کی محبت میں انہوں نے ایسا کیا جس سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی رفتار بہتر ہوئی۔

یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور ایٹم بم کا کریڈٹ اگر کسی ایک شخص کو دیا جا سکتا ہے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ جنہوں نے پاکستان آرمی کے تعاون سے اس پروگرام کا آغاز کیا، وسائل مہیا کیے اور حد درجہ رازداری کے ساتھ اس پروگرام کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد صدر ضیا الحق، بے نظیر بھٹو، غلام ا اسحاق خان، نواز شریف، غرض ہر حکمران اور ہر آرمی چیف نے اس پروگرام کو بھرپور استعداد کے ساتھ آگے بڑھایا۔ ایٹمی پروگرام میں نیوکلئیر سائنسدانوں خاص طور پر ڈاکٹر منیر احمد، ڈاکٹر بشیرالدین محمود وغیرہ کا ابتدا میں کردار انتہائی اہم ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی تعلیم اور ہالینڈ میں ملازمت کے حوالے سے کسی بھی طرح ایٹمی سائنسدان بھی نہیں۔

یورینئم کی افزودگی ایک مرحلہ ہے جس کا بم کی تیاری میں اہم کردار ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے پہلے پاکستان پلوٹونیم کی افزودگی کے ذریعے ایٹم بم تیار کرنے کے مرحلے میں تھا۔ یوریئنم کی افزودگی کی یورپی ٹیکنالوجی نے اس عمل کو آسان کر دیا۔ اس کے بعد نیوکلئیر وارہیڈ کا حصول ایک پورا مکمل مرحلہ ہے اور ایٹم بم کے حصول کی یہی اصل ٹیکنالوجی ہے۔ یورینئم اور پلوٹونیم کو افزودہ کرنا یقیناً ایک اہم حصہ ہے، لیکن یہ جان لیجیے کہ دنیا میں ساٹھ سے زیادہ ممالک یورینیئم افزودہ کر کے ایٹمی توانائی حاصل کر رہے ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک کے پاس ایٹم بم نہیں ہے۔

ایٹم بم بنانے کے آلات، مانیٹرنگ کے مخصوص کمپیوٹرز، دھاتیں، اور بے شمار مختلف آلات جو پوری دنیا میں اوپن مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے۔ اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی ان آلات کی نقل و حرکت پر خاص نظر رکھتی ہے۔ پاکستان کے سینکڑوں لوگ ان آلات کے حصول کے لئے قربان ہوئے، قید وبند کاٹی اور ان گنت لوگ ہیں جو ایٹم بم کی تیاری میں مختلف مرحلوں پر وطن کی محبت میں قربان ہوتے آئے۔

واپس آتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرف۔ وزیراعظم بھٹو کو آئی ایس آئی کی جانب سے ڈاکٹر عبدالقدیر کے حوالے سے رپورٹ میں انہیں اس کام کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ لیکن بھٹو نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے متوازی یورینئم کی افزودگی کے لئے کاوشوں کو موزوں خیال کیا۔ ابتدا میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پی اے ای سی میں ڈاکٹر بشیر محمود کی زیر نگرانی کام شروع کیا لیکن جلد ہی اختلافات کے سبب علیحدہ ہو گئے اور کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں یورینئم کی افزودگی پر تحقیق شروع کر دی۔

اس پورے عرصے میں ڈاکٹر منیر احمد پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے چئیرمین رہے۔ 1978 میں پاکستان نے ملٹری گریڈ یورینئم کی افزودگی حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد ایٹم بم بنانے کا عمل شروع ہوا۔ یاد ریکھیئے کہ ایٹم بم کو تجربے کی جگہ پر پہنچانا، مانیٹرنگ کے آلات نصب کرنا، ماحولیات کو نچانے کے اقدامات کرنا وغیرہ ایک طویل مرحلہ ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ گیارہ مئی انیس سو اٹھانوے کے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان نے ایٹمی تجربوں کی تیاری کی۔ پاکستان یہ مرحلہ ضیا دور میں مکمل کر چکا تھا۔ جب بلوچستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل رحیم الدین کی سربراہی میں ایٹم بم کی چاغی کے مقام پر تنصیب مکمل کر لی گئی تھی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کا یورینئم کی افزودگی میں سب سے اہم کردار ہے۔ جیسا کہ سب سائنسدان اس کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ یورینئم افزودہ کرنے سے بم نہیں بنتا۔ بم بنانے کی ٹیکنالوجی انجنئیرنگ کا بالکل الگ شعبہ ہے، اس کے ماہرین، اس کی ورکشاپس، اس کے مشینیں و آلات سب الگ ہیں۔ اور یہی اصل شعبہ ہے۔ اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند تھے۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ اسی کی دہائی میں پاکستان پلوٹونیم کو بھی کامیابی سے ملٹری گریڈ تک افزودہ کر کے پلوٹونیم بم بنا چکا تھا (ایٹم بم کی ہی ایک شکل) ۔

بھارت کے ایٹمی دھماکوں بے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ایٹمی سائنسدانوں سے بریفنگ لی، جہاں انہیں آگاہ کیا گیا کہ دس سے پندرہ روز میں ماہرین کی ٹیم دھماکے کرنے کے لئے تیار ہو سکتی ہے، کیونکہ کئی سال پہلے بم تیار کر کے بلوچستان پہنچایا جا چکا تھا۔ اس بریفنگ میں ڈاکٹر عبدالقدیر شامل نہیں تھے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ماہرین کی ٹیم کے ساتھ چاغی پہنچے جہاں 28 مئی کو دھماکے کیے گئے۔ یہ بھی واضح رہے کہ پہلے روز پانچ دھماکے یورینئم بم کے کیے گئے، جبکہ دو روز بعد ہونے والا ایٹمی دھماکہ پلوٹونیم بم کا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر بنیادی طور پر میٹالرجیکل سائنسدان ہیں۔ جنہیں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے سربراہ کے طور پر بے بہا فنڈز مہیا کیے گئے، جو عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ تھا۔ ان فنڈز کا کبھی آڈٹ نہیں ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے کتنے یورینئم کی افزودگی پر خرچ کیے اور کتنے اپنی ذاتی تشہیر پر۔ ڈاکٹر صاحب کو ایٹمی سائنسدان ثابت کرنے کے لئے کالم لکھوائے گئے، فرمائشی انٹرویو چھاپے گئے غرض پبلک ریلیشنگ کے جتنے ممکنہ ذرائع تھے، وہ سب آزمائے گئے۔ ایٹمی رازوں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ایک الگ داستان ہے، جس پر پھر کبھی سہی۔

ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو چاغی کے دورے کی دعوت دی گئی۔ وزیراعظم اپنی ٹیم اور چند صحافیوں کے ہمراہ کوئٹہ پہنچے جہاں گورنر ہاؤس میں قیام کیا گیا۔ وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر پہنچے اور وزیراعظم سے ساتھ چلنے کی فرمائش کی، جسے قبول کر لیا گیا۔ وزیراعظم کی ٹیم میں ممتاز صحافی نذیر ناجی بھی شامل تھے، جو وزیراعظم کے تقریر نویس اور قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے ان واقعات کو کچھ اس طرح رپورٹ کیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2