قومی بیداری اور عصبیت


کرہ ارض پہ آباد انسان کسی نہ کسی معاشرے اور قوم سے تعلق رکھتا ہے۔ تاہم اگر تمام اقوام کو پرکھا اور جانچا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ان سب کے اندر جو قدر مشترک ہے وہ ہے انسانیت۔ اعنی اگر بنظر ِ غائر دیکھا جائے تو انسانیت ہی وہ لڑی ہے کہ جس کے اندر ان سب کو پر و کر یکجا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم تاریخ کے صفحات الٹنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس قدر مشترک کے باوجود انسان نے انسان کا خون روا رکھا، اور اپنی عددی یا مالی برتری کو ثابت کرنے کے واسطے کسی جائز اور ناجائز چیز کی پرواہ نہ کی۔ دنیا کے اندر ان بسنے والی تمام اقوام کا اپنا تمدن، اپنی زبان اور اپنی روایات ہیں، جس پہ وہ بلا شبہ ناز کرنے کی مجاز ہیں۔ مگر ان میں سے کسی بات کو لے کر دوسری اقوام کی تضحیک اور ان کے امن و امان کو پائمال کرنا بھلا کیسے درست مانا اور کہا جا سکتا ہے۔

قانون ِ فطرت کے مطابق کچھ انسان کمزور الخلقت جبکہ بعض قوی الجثہ پیدا ہوتے ہیں، اور اسی قاعدے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بعینہ بعض اقوام طاقتور اور بعض کمزور ہوتی ہیں۔ اور پھر یہی طاقتور اقوام، اپنے ہی جیسی مگر ان سے کمزور دوسری اقوام کے اوپر غلبہ پالینے کی خواہش لیے مختلف حیلوں اور بہانوں سے حملہ آور ہو کر، ان کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردیتی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ اگر ہم ان عناصر کے اوپر غور کریں جو ایک قوم کو طاقتور بناتے ہیں تو ان میں ایک بڑا عنصر قومی عصبیت کا ملتا ہے۔ یہ وہ عنصر یا وہ جھنڈا ہے کہ جس کے تلے کسی بھی قوم کے منتشر افراد کو آسانی کے ساتھ جمع کر کے، ان کو ایک طاقتور جتھے کی شکل میں تبدیل کر سکتا ہے۔

ازمنہ قدیم سے ہی ہم دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جب بھی دو اقوم کی مڈ بھیڑ ہوئی تو اس کے نتیجے میں ایک غالب اور دوسری مغلوب ہوگئی۔ پھر اسی غالب قوم نے اپنی ثقافت، تمدن اور اثرات جب دوسری اعنی مغلوب قوم کے اوپر ڈالے تو بعض جگہ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اصل قوم کا حلیہ اور بنیادی ڈھانچہ تک بدل کے رہ گیا، اور اس قوم کی اپنی انفرادی شناخت اور پہچان ہی ملیا میٹ ہوگئی۔ لیکن انہی مغلوب اقوام میں سے بعض نے بیداری کی کروٹ لی اور صدیوں سے اپنے اوپر چھائی ہوئی ذلت اور پستی کو پچھاڑ کر بام ِ رفعت کا سفر شروع کیا۔ ایسی اقوام کی ترقی میں جو بنیادی عنصر نمایا ں رہا وہ یہی عصبیت کا عنصر تھا، کہ جب اس قوم کے دانشوران اور رہنماؤں نے قوم کے اندر قومی عصبیت کی روح کو بیدار کیا، تو اسی قوم نے فاتح قوم سے آزادی حاصل کی اور آزاد فضا میں سانس لیا۔

قومی عصبیت دراصل وہ ہتھیار ہے جو منتشر ا لخیال قوم کے افراد کو یک جان کر کے، ان کو دنیا میں ہونے کا احساس اور اپنی قدروقیمت سے آگاہ کرتا ہے۔ با الفاظ ِ دیگر ایک ایسی قوم جو غلامی اور ظلم کے جبر تلے زندہ رہنے پہ مجبور کر دی گئی ہوتی ہے، اس کے اندر جب اپنے ہونے کا احساس موجزن ہوتا ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب ان کی کایا پلٹتی ہے اور اپنے افراد کے اندر ایک منظم تحریک کا احساس پیدا کرتی ہے۔ وہ تحریک کہ جو اس کواپنی زبان، اپنی مٹی، اپنی ثقافت، اپنی تعلیم اور تمدن کی قدر وقیمت بتلا کر، اس کی شیرازہ بندی کر کے اس کے اندر موجود تفریق کے عنصر کو ختم کر کے اپنے اصلی دشمن اور جارح کا شعور عطا کرتی ہے۔

یہ تحریک اول تو انفرادی سطح پہ محرک ہونے کا سبب بنتی ہے، مگر آہستہ آہستہ اس کے بال وپر جب پھوٹتے ہیں تو انفرادی سطح پہ اٹھنے والی یہ تحریک، ایک قوم کی آواز بن جاتی ہے۔ وہ قوم جو نہ جانے کب سے گوشہ ء گمنامی میں جانے کے کارن اپنی شناخت اور تمیز تک کھو چکی ہوتی ہے، اس کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے جیسی دیگر اقوام کو یہ ماننے پہ مجبور کردیتی ہے کہ اس دھرتی پہ عزت اور آزادی کے ساتھ رہنے کا حق اس کو بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ باقی اقوام کو۔

یہ عصبیت لسانی، نسلی اور جغرافیائی تینوں جہت میں اپنے افراد کے اندر جذبہ حریت اور بیداری پیدا کر کے اس کو اس مقام تک لے آتی ہے، کہ جہاں وہ اپنے اوپر مسلط غیر کے سامنے اس شان سے کھڑا ہوتا ہے کہ جہاں اس کا مطالبہ آزادی اور عزت کے ماسوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور وہ اپنے اس بنیادی حق کے لئے، کسی بھی قربانی اور ایثار سے گریز نہیں کرتی۔

اس بات کے اندر ہر گز کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ صرف زندہ رہنا ہی زندگی نہیں، بلکہ عزت اور وقار کے ساتھ جینا اصل زندگی ہے۔ اور کوئی بھی معاشرہ یہ عزت اور وقار کا مرتبہ اسی وقت پا سکتے ہیں جب کہ وہ زندہ ہوں اور زندہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے آزادی۔ آزادی کا مطلب صرف ایک ٹکڑا زمیں کا لے لینا ہی نہیں ہے بلکہ، اس کے تحت اظہار ِ رائے کی آزادی، حریت ِ فکر کی آزادیاور قلم کی آزادی بھی شامل ہے۔

ایک ایسی آزادی جہاں یہ سب کچھ کرنے اور کہنے کا مقصد پابند سلاسل یا تختہ ء دار ہو، جہاں سوالات کا جواب ادھورے ہوں، جہاں خواب دیکھنے پہ پابندی ہو، جہاں سچ کا مطلب تنہائی ٹھہرے، جہاں اپنی مرضی سے نمائندہ چننے کا حق نہ ملے، جہاں ہر روز سسک سسک کر جینا پڑے، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں سننے والا کوئی نہ ہو، جہاں مامتا کی محبت اپنے بچوں کو مرتے دیکھ کر بے بسی کی موت مر رہی ہو، جہاں ایک غمزدہ باپ جوان بچے کا لاشہ لئے انصاف کا قتل اپنے سامنے ہوتا دیکھے، جہاں ریاست اپنے شہریوں کی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہو جہاں مجھے اپنا فیصلہ کرنے کا حق نہیں، جہاں عوامی نمائندے قوم کے مستقبل سے لاتعلق ہوں، جہاں حقیقت بیان کرنا غداری کے مترادف ٹھہرے، جہاں آئین جیسی مقدس چیز کے ساتھ کھلواڑ کو فخر گردانا جائے، جہاں ان دیکھی قوتوں کا راج ہو، جہاں روز گھٹ گھٹ کر جینا اور سسک سسک کر، بے بسی کی موت مرنا ہو، اس کو کیا ہم آزادی کہیں؟ کیا یہ ہوتی ہے آزادی، کیا ایسی ہوتی ہے آزادی؟

اس آزادی نما غلامی کو کوئی عقل سے پیدل اور شعور سے بے بہرہ ہی اگر آزادی مانے تو کچھ گلہ نہیں، مگر حقیقت میں یہ آزادی نہیں، غلامی کی وہ بد ترین شکل ہے جو انسان کو اس احساس اور شعور سے ہی ماوراء کر دیتی ہے کہ جہاں پہ جا کر وہ یہ سوچنا ہی چھوڑ دیتا ہے کہ وہ کون ہے؟ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ تو جب غلامی کا یہ عالم ہو تو اس قعر ِ مذلت اور مرگ مفاجات سے جو چیز نجات دلا سکتی ہے وہ قومی شعور ہی ہے جس کا دوسرا نا م عصبیت ہے۔

تاہم عصبیت کا درخت جھبی تناور ہوسکتا ہے کہ جب قوم کے اندر ایک ہونے کا احساس پیدا ہو اور وہ ہر داخلی اور خارجی تفریق کو مٹا کر، اس بات کے اوپر آمادہ ہو کہ اب اس ظلم کی طویل داستان کو قصہ ء پارینہ بنا کر دم لینا ہے۔ یہ عصبیت یا قومی شعور ہی ہمیں اس بات سے آگا ہ کر سکتا ہے کہ جب ہمیں آزادی سے جینا ہے تو آزادی حاصل کرنی ہوگی، ان وقت کے فراعین سے، ان نادیدہ قوتوں سے، ان تفرقہ ڈالتے مذہبی طبقات سے، ان احساسات اور جذبات کو کچلتے بے رحم اور بے حس انسانوں سے کہ جس کے سبب معاشرہ قبل از وقت جہنم کی وہ وادی بن چکا کہ جس سے باقی جہنم بھی پناہ مانگے۔

آج ہمارا اجتماعی شعور اس قدر مسخ ہو چکا کہ ہم حریت ِ فکر کے ساتھ سوچنے کو بھی سب سے بڑا گناہ سمجھتے ہیں، اور اس بات سے شاکی کہ ہم آزاد نہیں ہیں۔ ہم کس آسانی کے ساتھ اپنی سوچ کو جھٹک دیتے ہیں اور ضمیر کو سلا دیتے ہیں کہ جب ہمارے سامنے کوئی یہ مسئلہ سامنے رکھتا ہے کہ اقوام ِ عالم کے اندر ہمارا وقار کیوں نہیں، ہماری عزت کیوں نہیں، ہمارے خون کی قیمت اتنی ارزاں کہ جو چاہے اور جب چاہے اسے خرید لے، کیا ہم واقعی کسی انسانی معاشرے میں ہی رہ رہے ہیں یا اس سے ہمارا کوسوں دور بھی واسطہ نہیں۔

آج ہم کیوں نہیں سوچتے کہ یہاں دلیل کے مقابل گولی کیوں ہے، اخلاق کے مقابل دشنام طرازی کا طرہ کیوں ہے، لسانی، نسلی اور مذہبی بنیاد پہ تفریق کون کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے؟ مجھے میرے بنیادی حقوق سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ طبقاتی بنیاد پہ یہاں سلوک کیوں ہو رہا ہے؟ قانون کسی خاص طبقے کا ہی محافظ کیوں ہے؟ اعلی تعلیم کسی خاص کی جاگیر ہی کیوں؟

یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کے جوابات ہم اجتماعی شعور اور ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہی حاصل کر سکتے ہیں، اور جس دن ہم نے ان سوالات پہ غور کرنا، اور ان کے جواب کے لئے جستجو کرنا شروع کردی، میں پورے تیقن سے کہتا ہوں ہماری اصل آزادی کی جدوجہد اسی دن سے شروع ہوجائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).