جنرل ڈائر، برنٹن ٹیرنٹ اور رڈ یارڈ کپلنگ


انسانی دشمنی کی تاریخ میں سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کا خمیر نسل پرستی کے عفریت سے اُٹھایا گیا ہو، نسل پرستی وہ شیطانی جذبہ ہے جس میں ایک انسانی گروہ محض اپنی نسلی برتری قاہم کرنے کی خاطر دیگر بندگان خدا کو تباہ و برباد کردیتا ہے، اس جرم میں ملوث مجرم چاھے اس کا جرم انفرادی ہو یا اجتماعی اپنے جرم پر کبھی پشیمان نہیں ہوتا بلکہ فخر کرتا ہے۔

13 اپریل 1919 میں پیش آنے والے سانحہ جلیانوالہ باغ اور جنرل ڈائر جسے تاریخ امرتسر کے قصاب کے نام سے پکارتی ہے، سب واقف ہیں، یہ واقعہ اتنا درد انگیز تھا کہ اس پر پورے ہندوستان کے طول عرض میں صف ماتم بچھ گئی تھی اور پوری انسانیت تلملا اُٹھی، ٹھیک ویسے ہی جیسے حال ہی میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں پیش آنے والے خون آشام واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جہاں یہ واقعات اپنے اندر درد انگیز ہیں وھیں اس سے زیادہ درد انگیز مجرموں کا اپنی نسلی برتری کے نشے میں بدمست رویہ ہے جو کہ جرم کے بعد ان کے دلوں میں احساس جرم یا پچھتاوے کا کوئی ارتعاش پیدا کرنے کے بجائے ان کے مزاج میں تمکنت اور برہمی کا جرم کے بعد بھی جوں کا توں قایم رہنا ہے۔

جنرل ریجی نالڈ ایڈورڈ ڈائر، المروف امرتسرکا قصاہی

جلیانوالہ باغ، امرتسر 13 اپریل، 1919

جنرل ڈائر نے جو بیان حکومتِ برطانیہ کے قاہم کردہ نام نہاد ”ھنٹر کمیشن“ کے سامنے دیا اس سے اس کی نسل پرستانہ ذہنیت کی پوری غمازی ہوتی ہے، ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ”میں گھر سے ہی اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرکے نکلا تھا کہ ہجوم پر گولیوں کی بوچھاڑ کردوں گا“۔ جب ہنٹر کمیشن نے مزید پوچھا کہ جب ہجوم پہلی گولی کے ساتھ ہی منتشر ہوگیا تھا تو کم نے مزید اس سلسلے کو مزید کیوں جاری رکھا؟ اس پر جنرل نے تمکنت سے جواب دیا کہ ”میں اپنا بنیادی فرض سمجھتا تھا کہ جب تک وھاں کوئی ایک بھی متنفس موجود ہے میں برابر یلغار کرتا رہوں“۔

ایک اور سوال کے جواب میں اپنے غصے کی وجہ بیان کرتے ہوے جنرل ڈائر کہتا ہے کہ ”جب میں وھاں پہنچا تو ہجوم میں موجود لوگ بڑے شوخ اور گستاخ نظر آرہے تھے“۔

اسی طرح نیوزی لینڈ کی النور مسجد میں گولیوں کی بوچھاڑ کرنے والے دہشت گرد برنٹن ٹورنٹ نے بھی اس وقت تک اپنی خودکار بندوق سے اس وقت تک گولیاں برساہیں جب تک اسے یقین نہیں ہوگیا کہ کوئی زندہ نہیں بچا بلکہ وہ اپنی پوری کارواہی کو انٹرنیٹ پر براہ راست نشر بھی کرتا رہا، اس نے اپنے اس کارروائی کے مقاصد کا کچھ حصہ تو اپنی بندوق پر لکھا ہوا تھا اور باقی منشور کی صورت میں 72 صفحات پر مشتمل باقاعدہ دستاویز کی صورت میں شایع کی، جب اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا گیا تو اس کی تمکنت اور مزاج کی برہمی جنرل ڈائر کی مانند ہی تھی اور جب تک وہ عدالت میں موجود رہا اس نے اپنی انگلیوں سے سفید نسل پرستوں کی برتری کا نشان بناے رکھا۔

اس قسم کی پرفریب کارواہیوں کے لیے ان نسل پرستوں نے عجیب و غریب قسم کے فلسفے گھڑ رکھے ہیں اور ان پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ بسا اوقات بڑی ہی دل فریب اصطلاحات کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر سفید فام استعمار کے ظلم و ستم کو ان کے کے نسل پرست دانشور اور شعرا نے ”سفید فام کی خدمات جلیلہ“ سے تعبیر کیا ہے۔ وہ انسانیت کو اس دھوکہ میں مبتلا کرنا چاھتے ہیں کہ گوری قوم نے دوسری اقوام کی آزادی سلب کر کے اور اقتدار کی باگیں سنبھال کر اپنے اوپر ایک ناقابل برداشت بوجھ لاد دیا ہے اس وجہ سے وہ ملامت کے نہیں بلکہ شکریہ اور احسان مندی کے مستحق ہیں

انگلستان کے شاعر رڈیارڈ کپلنگ کی مشہور نظم ”سفید فام کا بار“ اس ذھینیت کی پوری طرح غمازی کرتا ہے۔ یہاں اس کے چند اشعار کا ترجمہ حاضر ہے :

تم سفید فام کی ذمہ داریوں کو اُٹھاو

اپنی بہترین نسل کو اس کام کے لیے آگے بڑھاو

جاؤ اور اپنے نوجوانوں کو

جلاوطنی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور کرو

تاکہ وہ تمہارے غلاموں کی ضروریات کی نگہداشت کریں

بپھرے ہوئے اور منہ زور لوگوں پر تسلط قائم کریں

ان لوگوں کو گرفتار کریں

جو خود سر اور ضدی ہیں

شیطنت نے جن کی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا

اور بچپن نے جنہیں اپنے چنگل سے ابھی آزاد نہیں کیا

The White Man ’s Burden


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).