اسلام کا کاروبار، طلباء کی شدت پسندی اور تعلیمی اداروں میں قتل


جس نام یا کاروبار کے آگے پیچھے اسلامی کا دم چھلا لگا ہوا ہوتا ہے، سمجھ جاؤ اسلام کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلامی ملک، اسلامی مرکز، اسلامی بنک، اسلامی بیمہ، اسلامی طب، اسلامی قانون، اسلامی شہد، اسلامی مدرسہ، وغیرہ۔ آپ نے کبھی کسی اسلامی مسجد کا نام نہیں سنا یا دیکھا ہوگا۔ اگرچہ مسجدیں بھی فرقوں کی ہیں۔

ہمارے ایک سید سکول ٹیچر تھے۔ اپنی محنت، ایمانداری قابلیت اور خوش خطی کے لئے بہت مشہور تھے۔ ان کا چھوٹا بھائی ایک مسجد میں بغیر محنتانہ لئے پیش امام تھے۔ (وہ نماز یا بچوں کو قرآن پڑھانے کا محنتانہ اس لیے نہیں لیتے تھے کہ وہ کہتے تھے اگر نماز پڑھانے کا محنتانہ لونگا تو اپنی نماز کب پڑھوں گا۔ کیونکہ مسلمان کو نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ پڑھانے کا نہیں ) روزگار کے لئے وہ سکولوں میں جاکر عطر بیچتے تھے۔ اس کے بھائی کی وجہ سے علاقے کے ہر سکول میں وہ مہینے میں ایک بار چکر لگایا کرتے تھے اور کسی سکول میں ان کے عطر بیچنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی۔

اس سلسلے میں ایک دن ہماری کلاس میں آئے۔ اردو کی کلاس تھی۔ شاہ صاحب نے عطر کے بارے میں اپنی بات کی۔ جو بچے عطر خرید سکتے تھے انہوں نے ایک ایک روپے میں عطر کی شیشیی خریدی۔ نکلتے ہوئے اردو کے ٹیچر نے شاہ صاحب کو بتایا۔ کہ عطر بیچتے ہوئے اگر آپ یہ بھی بتایا کریں کہ عطر لگانا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ تو اچھی بات ہوگی۔ شاہ صاحب نے چلتے چلتے جواب دیا۔ جناب میں عطر بیچتا ہوں، سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہیں۔

اس دن کے بعد اللہ تعالٰی نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بڑی وضاحت سے دیکھ سکتا ہوں کہ کون کیا بیچتا ہے؟ قوم پرستی کون بیچتا ہے، روٹی کپڑا اور مکان کون؟ حب الوطنی کون بیچتا ہے اور وطن کون؟ دین کو نظر انداز کر کے دنیا کون لیتا ہے اور آخرت کون بیچتا ہے؟ معصوم اور دو وقت کی روٹی کو ترسے ہوئے جاہل عوام کے ساتھ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی تجارت کون کرتا ہے؟ لیکن سب تاجروں میں بدترین تاجر وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی دھائی دے کر تجارت کرتا ہے۔

جو کبھی اسلام کو خطرے میں بتاکر اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ اور کبھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطرے میں بتا کر دوسروں کو الو بناتا ہے۔ کبھی کسی مغربی ملک کے کسی نامعلوم زبان میں چھپنے والے کسی غیر معروف اخبار میں کسی ذہنی مریض کے بنائے گئے نظرانداز شدہ کارٹونوں کو چھ مہینے گزرنے کے بعد پاکستان میں احتجاج کا موضوع بناکر خود کو مجاہد اسلام ثابت کرتا ہے۔ اور کبھی کسی ایسی زبان میں لکھے گئے حلف نامے کی گرامیٹیکل نکتے کو، وجہ عناد بناکر ملک کو میدان کار زار بنا دیتا ہے، جس زبان کی اے بی سی سے بھی اس کو کوئی آشنائی نہیں ہوتی۔

عجیب بات یہ ہے کہ پچانوے فیصد مسلمانوں کے ملک پاکستان میں اکثر وبیشتر اسلام خطرے میں ہوتا ہے۔ نہ امریکہ اور روس میں اسلام خطرے سے دوچار ہوتا ہے۔ نہ چین میں، جہاں دس لاکھ سے زیادہ مسلمان معاشرتی ڈرائی کلیننگ سے گذارے جارہے ہیں۔ اور نہ تیس لاکھ عراق، پچیس لاکھ افغانستان اور تیس لاکھ شام کے مسلمانوں کے قتل عام سے اسلام خطرے سے دوچار ہوتا ہے۔

جیسے ابتدا میں، میں نے لکھا ہے کہ اسلامی لفظ کی اضافیت سے اسلام کے کاروبار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہی لفظی اضافیت نشاندھی کرتا ہے کہ اسلام پاکستان کا سب سے بڑا روزگار ہے۔ ہم سمجھتے ہیں۔ اسلام ہماری مجاہدانہ کوششوں کی وجہ سے زندہ و پائندہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اسلام ہماری شبانہ روز رکھوالی کی وجہ سے ہنود و یہود کی سازشوں سے محفوظ و مامون ہے۔ اور دن رات پھل پھول رہا ہے ( پتہ نہیں، یہ ہمارے دودھ میں پانی، دال میں کنکر، پتی میں چنے کا برادہ کون ملاتا ہے؟ کتا اور گدھا کڑاھی، اپنے مجبور بیماروں کو دو نمبر کی دوائیاں اور معصوم بچوں کو دو نمبر کی ٹافیاں کون بناکر بیچتا ہے ) اور سب سے بڑھکر یہ کہ ہمارا ملک اسلام کا قلعہ ہے۔ تو کیا سات سو مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ہاتھوں بیچنے کا اعتراف اسرائیل کے یہودی صدر نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں کیا ہے؟

اسلام پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے سے موجود تھا۔ اسلام پوری دنیا کے سارے انسانوں کے لئے ہے نہ کہ صرف مسلمانوں کے لئے اور وہ بھی صرف پاکستان کے مسلمانان کے لئے۔ اسلام کا ٹھیکہ کسی حقیقی یا فرضی مسلمان ملک یا گروہ نے نہیں لیا ہے نہ اسلام کے جملہ حقوق کا کوئی واحد مالک ہے۔ اسلام کسی خاص وقت اور معاشرے میں منجمد بھی نہیں اور کسی خاص دور کے لئے مخصوص بھی نہیں۔

اسلام وقت کی طرح بہتا ہوا ایک سیال حقیقت ہے۔ یہ کسی خاص زبان، قوم، زمانے، ملک، تہذیب اور معاشرے کے لئے نہ ہے نہ رہیگا۔ جس نے اسلام اپنے گھر میں پایا۔ جس نے متاثر ہو کر قبول کیا اور جس نے کسی وجہ سے قبول نہیں کیا اسلام ان سب کا اور سب کے لئے ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا واحد منبع قرآن اور اس کا واحد شارح نبی رحمت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں موجود سارے انسانوں اور قیامت تک آنے والے سب کے لئے ہے۔

ان کو نہ ماننے والے بھی ان کی امت ہے اگر ان تک اسلام پہنچایا گیا اور انہوں نے قبول کیا۔ اسلام کسی کا مخالف نہیں نہ اسلام حزب اختلاف کی کوئی پارٹی ہے۔ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان دعوت دینے اور دعوت دیے جانے والوں کا رشتہ ہے۔ دعوت دینے والے دعوت دینے والوں کو دعوت ہمیشہ پیار، احترام اور عزت کے ساتھ دیتے ہیں۔ عزت سے بلاتے ہیں۔ بہترین نشست، بہترین کھانا، بہترین اخلاق کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اور دعوت قبول کرنے والے کی آمد اور دعوت کی قبولیت کو اپنی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔

لیکن ہمارا رویہ کچھ یوں ہے جیسے اسلام ہمارے قبضے میں ہے۔ اس مقبوضہ اسلام میں کسی کو بھی کوئی بات کرنے کا کسی قسم کا کوئی حق نہیں۔ اور حق صرف وہ ہے۔ جو میں نے اپنی مسجد، فرقے اور مدرسے کے مولوی اور استاد سے سنا ہے۔ باقی سب اسلام کے دشمن، بے دین اور سازشی ہیں۔ اور ان سارے سازشیوں اور بے دینوں کو جان سے مارنے کا خدائی حق کلیتہً مجھے حاصل ہے۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حضرت بلال رض سے پوچھتے ہیں۔ کہ صبح کی اذان میں آپ نے اضافی الفاظ کون سے آدا کیے؟ وہ جواب میں اضافی الفاظ بیان کردیتے ہیں۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، نہ بلال رض کی سرزنش کرتے ہیں، نہ ناراض ہوتے ہیں۔ نہ خبردار کرتے ہیں کہ میں ابھی موجود ہوں اور آپ لوگ دین میں نئی نئی باتیں نکالنے لگے ہو۔ بلکہ خوش ہوتے ہیں۔

حضرت عمر فاروق رض کے دور میں، وہ ایک رات مسجد نبوی تشریف لاتے ہیں۔ الگ الگ نماز پڑھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے نماز کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ پتہ لگنے کے بعد کہ نماز تراویح پڑھ رہے تھے۔ سب کو ایک ساتھ ایک امام کے پیچھے پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔ اور خود نماز پڑھے بغیر گھر چلے جاتے ہیں۔ کسی نے حضرت عمر رض کے اس عمل کو دین میں مداخلت سمجھ کر اور یہ کہہ کر رد نہیں کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رض نے اپنے وقت میں باجماعت تروایح نہیں پڑھائی۔ تو آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں اور نہ کسی نے تراویح چھوڑ کر ان کے گھر جانے پر اعتراض کیا۔ یہ دونوں واقعات احادیث اور تاریخی کتب میں موجود ہیں۔ اور دونوں کا تعلق دین کے سب سے اہم رکن اور ستون نماز سے متعلق ہیں نہ کہ کسی معاشرتی یا فروعی مسئلے سے۔

حضرت اسامہ رض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگ کے بارے میں بتارہے تھے کہ ایک کافر دوران جنگ ان کی تلوار کے زد میں آیا تو ڈر مارے کلمہ طیبہ پڑھا لیکن میں نے نہیں چھوڑا اور قتل کیا۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد کیوں قتل کیا؟ کیا تم نے اس کا دل چھیر کر دیکھا تھا کہ وہ سچا نہیں تھا؟ اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا، اللہ گواہ رہنا میں اسامہ رض کے اس عمل سے بریت کا اقرار کرتا ہوں۔

سوچیئے، جنگ میں ایک مستند، محارب، مسلح، اسلام کے خلاف مصروف جنگ کافر تلوار کی وار کے نیچے کلمہ اسلام پڑھتا ہے۔ اور قتل کردیا جاتا ہے۔ لیکن نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اس قتل کی ذمہ داری سے اور مجاہد صحابی کے اس اضطراری عمل سے برات کا اظہار کرتا ہے۔ دوسری طرف باپ دادا کے دور سے مسلمان، نمازی، روزہ دار، حج اور عمرہ کرنے والے، ہمارے سامنے اور ساتھ رکوع وسجود ادا کرنے والے، جنازوں اور میلادوں میں شرکت کرنے والے، جانے پہچانے مسلمان پر کافر کا، توہین دین کا، اہانت قرآن کا، یا توہین رسالت کا الزام لگا کر ہم قتل کردیتے ہیں۔

اور اپنے اس جاہلانہ اور مجرمانہ برادرکشی پر فخر کرتے ہیں۔ (جس نے مسلمان پر ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں۔ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ الحدیث) اور پوری قوم اس بے حس جاہل مطلق کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ جبکہ اسامہ رض جیسی ہستی کے میدان جنگ کے عمل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برات کا اظہار کیا ہے۔ تو ایسے ”غازی“ اور ”شہید“ اور اس کے چاہنے والوں کی کیا حیثیت ہوگی۔

اسلام میں حصول علم فرض ہے (یہاں اسلام جاہلوں کے پاس یرغمال ہے ) لیکن ہم علم حاصل کرنے والوں (مشال شہید) اور علم دینے والوں ( بہاولپور کے شہید پرفیسر) کو جاہلیت کی بنا پر اسلام کے نام پر قتلِ کرتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ لوگ کالج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے اور جہالت سے جان چھڑانے کے لئے نہیں آتے بلکہ وہاں کے اساتذہ کو پڑھانے یا ٹھکانے لگانے آتے ہیں۔

جن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، کی شان، اللہ کے حکم سے و رفعنلک ذکرک ہو۔ ان کی ہستی کو اس ملک میں توہین کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس کتاب اور دین کو اللہ تعالیٰ نے تاقیامت برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے وہی کتاب اور دین یہاں مٹنے کے خطرے سے دوچار ہوتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے۔ کہ ہمیشہ پاکستان میں کیوں؟ کسی اور ملک میں کیوں نہیں؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani