کہیں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم صوفی تو نہیں!


خود کو بار بار یہ سوچنے سے منع کرتی ہوں مگر رہ رہ کر سوچتی ہوں کہ جیسنڈا آرڈرن نام کی یہ بی بی صوفی تو نہیں!
خود کو سمجھاتی بھی ہوں کہ وہ مسلمان تو نہیں، تو پھر صوفی کیسے ہوئی!
اوپر سے حکمران!

حکمران صوفی ہو ہی نہیں سکتا!
بلکہ حکمران اپنی حکمرانیت کے جاہ و جلال تلے اپنی روح تک کھو دیتا ہے اور صرف جسم باقی رہ جاتا ہے اور اس جسم پر ایک سریہ لگی گردن اس خوف میں تنی رہتی ہے کہ کہیں سر پر رکھا تاج گر نہ پڑے! حکمران کے دونوں ہاتھ بھی ہر وقت اپنا ہلتا ہوا تاج سنبھالنے میں مصروف رہتے ہیں۔

اس لیے حکمران عموماً اونچائی پر کھڑا رہتا ہے۔ نہ عوام میں اترتا ہے اور نہ انہیں اپنے قریب آنے نہیں دیتا ہے کہ کہیں تاج گر نہ پڑے!
کسی بھی سلطنت میں جو جان سب سے زیادہ خطرے میں ہوتی ہے وہ حکمران کی جان ہوتی ہے۔

ہر آہٹ پر اس کا دل دھڑکتا ہے کہ کہیں دشمنِ جاں سر پر تو نہیں آ پہنچا!
اور یہ ہے بھی حقیقت۔

جوں جوں حکمران کرسی پر جم کر بیٹھنے لگتا ہے، عوام میں یا ریاست کی جڑوں میں اس کے قاتل پروان چڑھنے لگتے ہیں۔
حکمران حکمرانیت کے نشے میں دھت ہوتا چلا جاتا ہے اور ممکنہ قاتل اپنا نشانہ بناتا چلا جاتا ہے۔
اس لیے حیراں ہوں کہ اس بی بی جیسنڈا میں کچھ ہے جو صوفیوں جیسا ہے کہ وہ حکمران ہوتے ہوئے بھی حکمرانوں جیسی نہیں ہے!

صوفی کی پہلی نشانی اس کی آنکھ کا آنسو ہوتا ہے۔
یہ آنسو رب کی وہ عطا ہے جو ہر آنکھ کو میسر نہیں ہوتی۔
یہ رب کی مرضی ہے کہ وہ کس آنکھ کو وہ آنسو دیتا ہے جو ایک گداز دل کی آبیاری کرے!
اور یہ بھی اس کی مرضی ہے کہ وہ کس آنکھ کو سوکھا بیاباں بناتا ہے!

صوفی کے آنسو کی شناخت یہ ہے کہ وہ غیر کے غم کی تپش پر پھوار بن کر برستا ہے!
اس کے دل کا گداز رب العالمین کی مخلوق کو سینے سے لگاکر چین پاتا ہے۔

صوفی کو رب اس کی مخلوق میں ملتا ہے اور جابجا ملتا ہے۔
اسی وجہ سے وہ مخلوق میں امیری غریبی، سیاہ و سفید، عربی و عجمی اور دین و دھرم کی تفریق نہیں کرپاتا۔

صوفی کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ رب اسے عین ایسی جگہ منتخب کرکے مقرر کرتا ہے جہاں نفرت کے انگارے انسانی راہ میں بچھے ہوں۔ رب اس سے ان انگاروں کو پھول بنانے کا کام لیتا ہے۔
گو کہ صوفی خود بھی اپنے اوپر لگی اس ڈیوٹی سے بے خبر ہوتا ہے اور حیراں ہوتا ہے کہ میرے ہاتھوں انگارے کیسے پھول بن رہے ہیں!

مگر یہ انتخاب ہوتا ہے اس کا جس کے اختیار میں ہے کہ وہ کس دل پر مہر لگاتا ہے اور کس دل کو اپنی نشانیوں پر غور کرنے کا اعزاز بخشتا ہے!
صوفی کی ایک بہت بڑی شناخت وہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی تاریخ میں ہمیں بہت سے صوفی نام بڑی شان کے ساتھ ملتے ہیں۔

وہ یہ ہے کہ صوفی زوال پزیر خونریز زمانے میں اچانک زمانے کے سامنے سینہ سپر کھڑا ہوجاتا ہے اور آوازِ حق بلند کرتا ہے اور انگلی اٹھا کر ظالم کو ظالم کہتا ہے اور ظلم کو ظلم کہتا ہے۔
وہ ظالم کا نام گمنام کرکے چھوڑتا ہے۔
یوں تاریخ میں کئی ظالم دھول ہوئے اور کئی صوفیاء مر کر بھی زندہ ہیں۔
بدمست زمانے میں ایسے صوفی کی آواز گونج بن کر گونجتی ہے اور زمانہ چونک چونک اٹھتا ہے۔

صوفی کی ایک بہت ہی گہری اور پوشیدہ نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمیں اس کے اردگرد رب العالمین کا ذکر سنائی دینے لگتا ہے۔ اس ذکر میں بلا مذہبی اور نسلی تفریق خلقِ خدا کی گونج شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔

یہ ذکر گویا صوفی کے لیے سند کا درجہ رکھتا ہے۔
صوفی کا حکمران ہونا تو بالکل ہی ایک عجب معاملہ ہے!
سچ تو یہ ہے کہ حکمرانیت بہت ہی نازک فریضہ ہے۔

حکمرانیت بال سے بھی باریک اور تلوار کی دھار سے بھی تیز پل صراط کی طرح ہوتی ہے، جس پر حکمران کو انصاف کا ترازو یوں اٹھا کر چلنا ہوتا ہے کہ دونوں پلڑے برابر برابر رہیں۔
وہ جو رگِ جاں سے بھی قریب تر ہے اور ہم سے زیادہ ہماری نیتوں کو جانتا ہے، حکمرانی کے ترازو کے معاملے پر بہت ہی قہار و جبار ہے۔

جنبش برابر بھی ترازو میں فرق نہ آئے! چاہے ایک پلڑے میں عربی ہو اور دوسرے میں عجمی!
وہ بھی اس ترازو میں رکھا ہے جو اس پر فدا ہے اور وہ بھی اسی ترازو میں بیٹھا ہے جو سرے سے اسے مانتا ہی نہیں!

ایسا ترازو کوئی صوفی حکمران ہی اٹھا سکتا ہے، کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کی بات نہیں۔
ترازو کے دو پلڑے برابر برابر وہی ہاتھ اٹھا سکتا ہے جس پر رب العالمین کی نگاہ ہو۔
پچھلے جمعے سے اس جمعے تک ہم جیسنڈا بی بی پر یہ کرم سانس روکے دیکھ رہے ہیں۔

مگر پچھلے ایک ہفتے سے میرا خودغرض تعصبی دل بڑی پریشانی کے ساتھ یہ بھی سوچ رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے اعمال کے نتیجے میں رب العالمین نے ہم میں صوفیوں کی تخلیق بند کردی ہے اور اب تصوف کی عصا غیروں کو عطا کردی ہے!

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah