دوستی انمول رشتہ ہے!


زندگی میں رشتوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ ہر رشتہ اپنی جگہ انمول ہوتا ہے اور اپنی اہمت رکھتا ہے۔ زندگی میں رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ خون کے رشتے اور منہ بولے رشتے مگر ایک انسانی رشتہ ایسا ہے جس میں ”زندگی“ ملا کرتی ہے اور وہ ”رشتہ“ ہے ”دوستی کا رشتہ“۔ دوست ہمیں قدرت کی طرف سے تحفے میں ملتے ہیں جو بغیر کسی غرض اور فائدے کے ساری زندگی ہماری خوشی اور دکھ میں ہمارے ساتھ چلتے ہیں۔

زندگی میں ہر چیز کی اپنی ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے جس طرح ایک پیاسے کے لئے پانی بہت ضروری ہوتا ہے ایسے ہی زندگی میں رشتوں کے ان جھرمٹ میں دوست بہت ضروری ہوتے ہیں۔ اچھے اور مخلص دوست کسی خزانے سے کم نہیں ہوتے جنہیں کھونے سے ہم ہر وقت ڈرتے ہیں۔

لڑکے اپنے سکول اور کالج کے دوستوں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی لڑکی کی شادی ہوتی ہے وہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنا قمیتی اثاثہ اپنی سہلیاں بھی چھوڑ کر کسی دوسرے شہر یا کسی دوسرے ملک چلی جاتی ہیں۔ جب کبھی اسے ان دوستوں کی یاد آتی ہے تو ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ دل کو اداس بھی کر جاتی ہے۔ ایسے میں اگر آپ کی کسی سب سے اچھی دوست کا فون آ جائے تو بغیر چاند دیکھے عید ہو جاتی ہے۔

میرا تعلق صادق آباد سے ہے اور میں نے اپنا بچپن بھی وہی گزارا۔ میری تمام سہیلیاں بھی وہی آس پاس کے رہنے والی تھیں۔ بس پھر کیا ہوا کہ میری شادی لاہور ہوگئی اور میں اپنی سکھیاں چھوڑ کر لاہور شفٹ ہوگئی۔ دوستوں کی یاد تو بہت آتی تھی مگر ان کے نمبر بھی بند ملنے لگے یا شاید کسی وجہ سے انہوں نے نمبر تبدیل کرلیے اس لیے ان سے رابطہ نہیں رہ سکا۔

دن گزرتے گئے اور میں اپنے بچوں میں مصروف ہوگئی۔ پھر ایک دن میں اپنے کاموں میں مصروف تھی کہ فون کی بیل بجی۔ فون اٹھاتے ہی کانوں کے ساتھ ٹکراتی ہیلو کی آواز نے مجھے ایک دم اپنے حصار میں لے لیا۔ کیسی ہو؟ فون کرنے والے نے فورا سے سوال کیا۔ آپ کون ہیں؟ میں نے سوال داغ دیا۔ جواب آیا کہ محترمہ مجھے آپ سے بات کرنی ہے اور یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟ مجھے صرف آپ کی آواز سننی تھی۔ میرے مسلسل پوچھنے پر بھی اس نے اپنا نام نہیں بتایا۔

کہتی بھول جانے والوں کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ آواز تھی کہ دل کو چھو رہی تھی اور دماغ مسلسل کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اچانک زبان سے ایک نام نکلا ”نورین“ اور ارد گرد کا سارا منظر تبدیل ہو کر نو سال پیچھے چلا گیا جب ہم کالج کے آخری دن مل رہے تھے۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ یہ سورج نہ ڈوبے کیونکہ آج میرے سے میری اکلوتی دوست دور ہو رہی تھی۔ میرا دوستی کا حلقہ احباب بہت محدود ہے مگر جس کو دوست بناتی ہوں تو پھر دوستی خوب نبھاتی ہوں۔

پرائمری سے لے کر بی اے تک کی یہ میری واحد دوست تھی۔ وہ میرے اور میں اس کے ہر دکھ سکھ کی ساتھی تھی۔ وقت کی بے رحمی تھی کہ شادی ہو کر بہت دور آ گئی اور موبائل خراب ہونے سے نمبر بھی ختم ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے۔ یہ تو پھر چھوٹی سی دنیا ہے۔ آخر میری دوست نے نمبر ڈھونڈ ہی نکالا۔ سچے دوست جب بھی ملیں پرجوش ہی ملتے ہیں۔

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے لکھاریوں کی ایک ورک شاپ پر جانے کا موقع ملا۔ وہاں مجھے کچھ پرخلوص اور محبت کرنے والے لوگ ملے۔ ان سے میرا غائبانہ تعارف حافظ محمد زاہد کے توسط سے تھا۔ لیکن میں کبھی ان سے ملی نہیں اور نہ کبھی ان سے میری بات ہوئی۔ تقریب میں ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی یوں لگا جیسے ہم کافی پرانے واقف کار ہیں۔ تقریب میں داخل ہوتے ہی جب آنکھیں چار ہوئیں تو آنکھوں ہی آنکھوں میں تعارف ہو گیا اورہمیں ایسے لگا جیسے ہم کئی عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔

اس تقریب میں یہ تینوں نیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس بے حد حسین لگ رہی تھیں۔ مہوش احسن، قرۃ العین خالد اور فلک زاہد۔ تینوں کے مزاج مختلف، عمر میں بھی فرق لیکن دوستی ایسی جس کی کوئی مثال نہیں۔ پھر ان تینوں میں میں بھی آگئی اور اس طرح ہم چار دوست بن گئے۔ یہ تینوں شادی کے بعد کی میری بہترین دوستیں ہیں۔ ان کے ملنے سے زندگی میں دوبارہ بہار سی آ گئی ہے۔ ان کو دیکھ کر مجھے یہ جملہ یاد آ جاتا ہے ”یہ دوستی ہم نہیں چھوڑے گئے۔ “

دوستوں کا ذکر ہو رہا ہو اور میں اپنے بہترین دوست کا ذکر نہ کروں تو یہ صرف موصوف کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی ’بلکہ یہ دوستی کے رشتے کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔ کیونکہ موصوف ایسی شخصیت اور اخلاق کے مالک ہیں کہ ان کے ملنے والوں میں سے کوئی بھی ان کے حصار سے دور نہیں جاسکتا۔ ہر شخص کی زندگی میں ایک دوست ایسا ضرور ہوتا ہے جو زندگی کے ہرموڑ پر آپ کا ساتھ دیتا ہے‘ اچھے برے کا بتاتا ہے اور آپ کی خوشی کے لیے وہ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔

آپ اس سے جتنا مرضی ناراض ہو جائیں اس سے جتنا مرضی دور ہونے کی کوشش کر لیں وہ ہر بار آپ کو اپنے ساتھ جوڑ ہی لیتا ہے۔ آپ کو جانے نہیں دیتا۔ آپ کی ہر خامی اور ہر خوبی بتاتا ہے۔ میرے اس بہترین دوست کو دنیائے ادب حافظ محمد زاھد کے نام سے جانتی ہے۔ ان کا اور میرا ساتھ بچپن سے ہے اور اب ماشاءاللہ سے یہ ساتھ شادی کے بندھن میں بھی بندھ چکا ہے۔ لیکن میرے لئے انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم دونوں کا اصل رشتہ آج بھی دوستی والا ہے۔ اللہ کرے یہ ساتھ اور یہ دوستی یونہی قائم و دائم رہے اور کل موت کے بعد عالم ارواح میں بھی ہم ساتھ ساتھ رہیں اور پھر جنت میں بھی ہمارا ساتھ رہے۔ آمین!

قارئین! دوستی ایک انمول رشتہ ہے جو اپنے اچھے اخلاق سے کبھی بھی کسی کے ساتھ بھی بن سکتا ہے۔ دوستی کرنا آسان لیکن نبھانا تھوڑا مشکل ہے۔ ہم تجوری ہیں تو ہمارے دوست اس کی چابی ہوتے ہیں۔ اس لئے اپنے راز اپنے دوست کو بتانے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ یہ آپ کی تجوری کھول کر ہر ایک کے آگے تو نہیں رکھ دے گا۔ میری اپنے پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اپنے اور اپنے دوستوں کے درمیان کبھی بھی ضد، انا، ہٹ دھرمی اور غلط فہمی کو نہ آنے دیں۔ نہیں تو آپ ایک اچھے دوست سے محروم ہو جائیں گے جو زندگی کا سب سے بڑا نقصان ہو گا۔ تھوڑا سا جھکنے اور کمپرومائز کرنے سے کچھ رشتے ٹوٹنے سے بچ رہے ہوں تو ان کو ٹوٹنے سے بچا لینا چاہیے۔ ورنہ پچھتاوا انسان کا مقدر بن جاتا ہے اس لیے کہ پرخلوص دوست آسانی سے نہیں ملتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).