سانحہ ساہیوال کی فرانزک رپورٹ کے تہلکہ خیز انکشافات


سانحہ ساہیوال کی فرانزک رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آگئے۔ سانحہ ساہیوال میں پولیس اہلکاروں نے شواہد مٹانے کی کوشش کی جس کا فرانزک رپورٹ میں بھید کھل گیا۔ جے آئی ٹی ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے سانحہ ساہیوال کے بعد خفیہ طور پر فرانزک ماہر سے رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیا کہ سانحہ ساہوال کے شواہد کو کس طرح مٹایا جاسکتا ہے؟ پولیس کی جانب سے فرانزک ایکسپرٹ سے خفیہ رابطے کے لئے ایک سپاہی کی ڈیوٹی مختص کی گئی تھی جو گاہے بگاہے اس سانحہ سے بچاؤ کے لئے فرانزک ایکسپرٹ سے رابطے کررہا تھا اور رپورٹ اپنے اعلی افسران کو پہنچا رہا تھا۔

ایسے فرانزک ماہر سے رابطہ کیا گیا جو اپنی فیلڈ کا ماہر سمجھا جاتا ہے اور اس کا تعلق اسلام آباد ہے اور وہ ایک سرکاری تحقیقاتی ادارے میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ فرانزک ماہر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر تفصیلات سے آگاہ کیا کہ پولیس کی جانب سے خفیہ طور پر رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیا کہ اگر ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر ( ڈی وی آر) کی ہارڈ ڈرائیو تبدیل کردی جائے تو کیا حقائق پر پردہ ڈالنے میں کوئی مدد مل سکے گی۔

ڈی وی آر کی ہارڈ ڈرائیو میں سانحہ ساہیوال کے حوالے سے ساری گفتگو کا ریکارڈ، کال ریکارڈنگ، سانحہ کے وقت فون کا ریکارڈ، کس نے کس کو کیا کہا، جب پولیس پولیس ٹیم فائرنگ کرنے والی تھی تو فائر کا فائنل آرڈر کس نے دیا، کس نے اس آپریشن کو لیڈ کیا سمیت تمام شواہد موجود تھے جو سانحہ ساہیوال کی گتھیاں سلجھا سکتے تھے مگر ڈی وی آر جب فرانزک لیب پہنچایا گیا تو اس کا ہارڈ، ڈرائیو تبدیل ہوچکا تھا۔ ڈی وی آر کا ہارڈ ڈرائیو تبدیل کرکے کسی کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرائیو لگا دی گئی اور ڈی وی آر سے حساس ریکارڈ ضائع کیا جا چکا تھا مگر ڈی وی آر کے جدید معائنے کے بعد ہارڈ ڈرائیو تبدیل کرنے والا پراسرار شخص کچھ نشان ڈی وی آر پر اپنے فنگر پرنٹ کی صورت میں چھوڑ گیا۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی ہیڈ کو ان معاملات پر بریف کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ جس شخص کی انگلیوں کے نشان ڈی وی آر پر ملے ہیں اس شخص کو پکڑا جائے۔ مزید تحقیقات سے اسلام آباد کے اہم ترین فرانزک ایکسپرٹ کی مدد سے ڈی وی آر کی ہارڈ ڈرائیو تبدیل کرنے والے کی شناخت کرلی گئی ہے اور شناخت کیا جانے والا پولیس اہلکار وہی تھا جو خفیہ طور پر فرانزک ایکسپرٹ کے ساتھ رابطے میں تھا۔ مذکورہ پولیس اہلکار کا کال ریکارڈ بھی محفوظ ہے جس میں ڈی وی آر کی ہارڈ ڈرائیو تبدیل کرنے کی بات کی گئی تھی۔

پویس اہلکار نے کس کے حکم پر ڈی وی آر کا ریکارڈ ضائع کیا یہ سوال ابھی حل طلب ہے مگر ڈی وی آ ر کی فرانزک رپورٹ نے ثابت کردیا کہ ڈی وی آر کی ہارڈ ڈرائیو کو تبدیل کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سانحہ ساہیوال کے 10 دن گزر جانے کے بعد پولیس کی جانب سے اے کے 47 کی چار رائفلز فرانزک لیب میں جمع کروائی گئیں، فرانزک رپورٹ کے مطابق پہلی رائفل کی فائرنگ پن تبدیل کی گئی مگر گولی کے خول پر صرف فائرنگ پن کا نشان ہی نہیں ہوتا بلکہ گن کے اجیکٹر اور دوسرے مارک یا نشان بھی ہوتے ہیں جن سے اے کے 47 رائفل میچ کرگئی۔

دوسری اے کے 47 کی فائرنگ پن اور اجیکٹر دونوں ہی تبدیل کردیئے گئے، سانحہ ساہیوال کے قتل ہونے والے افراد کی گاڑی کا جب فرانزک کیا گا تو ایک گولی ایسی تھی جس کی گولی کا سکہ گاڑی کے دروازے میں اٹک گیا اور سکے پر رائفل کی نالی سے گزرنے کے بعد ایک نشان پڑتا ہے جس کو مکینکل فنگر پرنٹ کہتے ہیں جو ہر رائفل کا مختلف ہوتا ہے۔ گولی کا سکہ دوسری اے کے 47 کے میچ ہونے کا سبب بنا ہے۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق تیسری اور چوتھی اے کے 47 رائفل کی فائرنگ پن اور اجیکٹر کی تبدیلی کی وجہ سے میچ ہونا ناممکن تھا اور اسی طرح 36 گولیوں کے خول بھی میچ نہیں ہوئے جس کے بارے میں فرانزک رپورٹ کہتی ہے کہ خول اور رائفلز کو شواہد مٹانے کے لئے تبدیل کیا گیا۔

سانحہ ساہیوال میں استعمال ہونے والی پولیس کی گاڑی کا فرانزک بتاتا ہے کہ ایک ہی زاویہ سے چار فائر کیے گئے اور پولیس کی گاڑی پر اس وقت فائر کیے گئے جب پولیس گاڑی کھڑی تھی کیونکہ چلتی گاڑی پر ایک ہی زاویہ سے چار فائر نہیں ہوسکتے جبکہ گاڑی مبینہ طور پر 100 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہو۔ پولیس نے جب اپنی گاڑی پر خود فائر کیے تو غلطی سے ایک فائر گاڑی کے کمپیوٹر پر لگا جس سے گاڑی کا سارا سسٹم مفلوج ہوگیا اور گاڑی کو باندھ کر فرانزک ایجنسی لانا پڑا۔ فرانزک رپورٹ کے مطابق پولیس کی گاڑی پر کوئی فائر مقتولین کی جانب سے سانحہ ساہیوال کے دوران نہیں کیا گیا اور خواتین پر فائر صرف ایک فٹ کے فاصلے سے کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).