کیا بلاول بھٹو غدار ہے؟


غدار غدار کے نعرے لگ رہے ہیں، ضرور کوئی بھٹو آیا ہو گا. پاکستان یہ منظر چار دہائیوں سے دیکھ رہا ہے، ادھر بھٹو آئے تو ملک دشمن، بھٹو کی بیٹی آئے تو سیکیورٹی رسک اور نواسا آئے تو غدار ۔۔۔

اس خانوادے نے کیا عجب قسمت پائی ہے کہ پاکستان کے خاتمے کے چھ نکات کی منظوری کے آگے ڈھال بن کر ملک کو آئینی طور پر ختم ہونے سے بچانے والے وہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو جنہوں نے 90 ہزار قیدی بھارت سے چھڑائے، وہ بھی ملک دشمن ٹھہرے۔

مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں اجاگر کرنے والی اور ملک کو میزائل سسٹم دینے والی وہ شہید بے نظیر بھٹو جو دنیا میں پاکستان کی شناخت بنیں، وہ بھی غدار ٹھہریں، یہی نہیں بلکہ سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دینے سمیت ایسے ایسے جھوٹ گھڑے گئے کہ گوئبلز کی روح بھی شرمندہ ہو گئی۔

وہ جو ڈیووس میں بھارت کو للکارتا رہا، امریکا سے جرمنی تک پاکستان پاکستان کرتا رہا، بھٹو کا وہ نواسا بھی آج غدار قرار دیا جا رہا ہے، جس کے والد نے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے موقع پر انتشار کے شکار ملک کو پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر بچایا تھا، جب بغیر جرم وخطا کے اور محض الزامات کے تحت ساڑھے گیارہ برس جیل میں گزارنے والے اس شخص کے بیٹے کے خلاف میجر ریٹائرڈ جاوید چیمہ کی اہلیہ مسرت صاحبہ اور سوشل میڈیا سے ایوان تک کا سفر کرنے والی پی ٹی آئی کی سیمابیہ طاہر نے پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی تو اسی لمحے طے ہوگیا کہ حسین شہید سہروردی سے ملک میں غداری کے سرٹیکفیٹ بانٹنے کا جو سفر شروع ہوا تھا، وہ فیض احمد فیض، حبیب جالب، قرۃ العین حیدر، ولی خان، خیربخش مری، عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو سے ہوتے ہوئے اب یہ سفر بلاول بھٹو تک پہنچ چکا ہے مگر اسکرپٹ رائٹر کو سمجھ نہیں آ رہی کہ جن کے خمیر میں سر جھکانا شامل نہیں، وہ اب بھلا کیسے سرنڈر کردیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے سوال اٹھایا کہ آخر کیوں ان تنظیموں کے راہنماؤں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا، جن کو ہم نے خود کالعدم قرار دیا۔ بلاول بھٹو نے پوچھا کہ جنہیں ہم دنیا کے سامنے دہشت گرد کہتے ہیں، وہ اب تک حفاظتی تحویل میں کیوں ہیں۔ اور پھر اشارۃً، کنایاً اور مجازاً بھارتی طیاروں کا ذکر کردیا اور ہمارے اسکرپٹ رائٹر کا کمال دیکھیں کہ خط کا مضمون گول کر دیا گیا اور مجازاً کہی بات کو موضوع بنا لیا گیا، یہ مذموم کوشش دراصل سوالوں پر سے توجہ ہٹانے کی ایک ناکام کوشش ہے مگر اب ان پیدا ہوتے سوالوں کا گلا گھونٹنا اور ان آوازوں کو قتل کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔

جس وقت بلاول بھٹو زرداری انتہاپسندی کے بیانیے کو للکار رہے تھے، اسی وقت بہاول پور میں ایک طالب علم نے اپنے استاد کو انتہاپسندی کے نظریے کے تحت قتل کر دیا۔ ہم میں سے اکثر نے بلاول بھٹو زرداری اور بہاول پور کے طالب علم کے عمل کی بیک وقت مذمت کی مگر کیا یہ منافقت نہیں ہے کہ پورے پاکستان میں صرف ایک شخص ہے جو انتہاپسندی کو للکار رہا ہے اور ہم میں سے اکثر انتہاپسندی کے ساتھ ساتھ اس شخص کی بھی مذمت کررہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کچھ غلط نہیں کہا، انہوں نے وہی کہا جو ایک قومی سطح کے دلیر لیڈر کو کہنا چاہیے۔ بلاول بھٹو بے خوف ہے، نڈر ہے، اس میں کہنے کی جرات ہے، اس میں للکارنے کا سلیقہ ہے اور یہی وہ ادا ہے کہ جس میں جب جب پائی گئی، وہ ملک کا غدار قرار دے دیا گیا اور اسی طرز عمل پر بلاول بھٹو نے کہا کہ بھاڑ میں جائے تمہارا بیانیہ کہ کیا زندگی اب ایک فسطائیت زدہ ڈرامہ رہ گئی ہے، جس کے اسکرپٹ کے مطابق نہ چلا جائے تو آپ غدار ٹھہرو۔ بلاول بھٹو نے واضح الفاظ میں ان سب افراد کو کہا کہ میرا نظریہ ایک ہے جو اٹل ہے مگر تمہارا نظریہ ادلتا بدلتا رہتا ہے، بلاول بھٹو نے نوجوانوں سے کہا کہ پہلے پڑھیں، سوچیں اور پھر بولیں اور ملک کے ساتھ کھیلنے والے ان افراد کو نظرانداز کریں جو فسطائیت پھیلارہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری میدان میں آچکا ہے، وہ ڈٹ کر کھڑا ہے، وہ جھکنے اور سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں، ملکی سیاست میں صف بندی ہورہی ہے۔ اب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون کس صف میں شامل تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).