خطیب حسین کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟


خطیب حسین پیدا کیوں ہو رہے ہیں؟ وجوہات تو سامنے آ چکی ہیں۔ اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟ یہ سوال اہم ترین ہے۔ جو سانحہ ہوا ہے وہ نیوزی لینڈ سانحہ سے انتہائی سنگین ہے۔ پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر ہونے والے تمام سانحات سے زیادہ خوف ناک اور ہلا دینے والا سانحہ ہے۔ ملک کی نظریاتی اساس سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے ایک ہولناک پیغام ہے۔ جس سے پوری عمارت زمین بوس ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ استاد کا شاگرد کے ہاتھوں قتل ایک غیرمعمولی سانحہ ہے۔

جس سے ریاست اور سوسائٹی میں بھونچال نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔ عدم توجہی کا رویہ اصل وجوہات ہیں۔ جس سے خطیب پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو اس سانحہ پر فوری نوٹس لیتے ہوئے جائے وقوعہ پر جانے کی ضرورت تھی۔ شہید استاد کے گھر جاتے۔ یونیورسٹی طلبہ سے خطاب کرتے اور پریس کانفرنس کر کے قوم کے سامنے ریاست اور حکومت کا بیانیہ پیش کرتے۔ ایسی طرح بلاول اور دیگر سیاسی قیادت کو حرکت میں آنے کی ضرورت تھی۔

عوامی سطح پر مظاہرے ہوتے۔ اساتذہ تنظیمیں، طلبہ تنظیمیں، سٹاف یونینزاحتجاج کرتیں۔ مگر ایسا نہیں ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ خانے مذمت اور کچھ داد تحسین دے رہے ہیں۔ حقیقی سانحہ یہ ہے کہ استاد کے قتل کو معمولی سانحہ سمجھا گیا ہے۔ ریاست اور سماج کی موت واقع ہوئی ہے۔ ذمہ دار کون ہے؟ اہم سوال یہ ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعت تحریک انصاف ذمہ دار ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ذمہ دار ہے۔ بلاول اور عمران خان ذمہ دار ہیں۔

جنہوں نے سیاسی بیانیہ دینے اورکارکنوں کی سیاسی تربیت کی بجائے اقتدار کو مدنظر رکھا ہے۔ یعنی سیاسی سوچ سماج پر غالب نہیں آسکی ہے۔ جس سے غیر سیاسی سوچ کو تقویت ملی ہے۔ آج اگر سماج میں عدم رواداری، عدم برداشت، انتہا پسندی اور شدت پسند ی ہے تو اس کی ذمہ دار سیاسی پارٹیاں اور ان کی قیادتیں ہیں۔ سیاسی گروپ، فورمز اور سیاسی جماعتیں شکوہ کناں نظر آتی ہیں کہ سیاسی کام کے لئے مناسب ماحول دستیاب نہیں ہے۔ اسٹبلشمنٹ مذہبی جماعتوں کو سپورٹ کرتی ہے۔

ہمیں کام نہیں کرنے دیا جاتا ہے۔ عجیب احمقانہ بات ہے۔ اگر ماحول ٹھیک ہے۔ تو پھرسیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اگر اسٹبلشمنٹ کی سپورٹ کی ضرورت ہے تو سیاست کیا ہوئی؟ سیاسی جماعت کیا ہوئی؟ مطلب سیاسی جماعتیں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے بہانے تراشتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ آج سیاستدان مصلح، مسیحا، نجات دہندہ اور سماج سیوا کار کی بجائے تاجر، رسہ گیر، قبضہ مافیا، کمیشن خور، پراپرٹی ڈیلر، کرپٹ، اخلاقیات سے عاری، عادی مجرم، بدکار، سیاہ کار ہیں۔

کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی ہے۔ جنرل سیکرٹری بھی ہے۔ صوبائی صدر بھی ہے۔ ایم این اے بھی ہے۔ ایم پی اے بھی ہے۔ وزیر بھی اور مشیر بھی ہے۔ جب سماج سدھاریئے بھی یہی ہیں تو سماج کیسے سدھرے گا۔ پھر خطیب پیدا ہوتے رہیں گے۔ ممتاز قادری بھی بنتے رہیں گے۔ ذمہ دار تو یہی سماج سدھار والے ہیں جنہوں نے اپنی اخلاقی پستی کے سبب نان سٹیٹ ایکٹرز، عدم برداشت، تشدد، عدم رواداری، انتہا اورشدت پسندی کو سپیس فراہم کی ہے۔

فوج بطور ادارہ اگر آگے بڑھتی ہے تو اس کی بھی وجوہات ہیں۔ جواز ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قیادتوں کی اخلاقی کمزوریاں ہیں۔ ورنہ کسی سرکاری ملازم کی جرات نہیں ہے کہ سیلوٹ مارنے کی بجائے بوٹ مارنے کے لئے سیاسی رہنما کی جانب بڑھے اور ہاتھ ڈالے۔ فوج والے بھی سماج کا ہی حصہ ہیں۔ کچھ جذباتی سیاسی نابالغ کہہ سکتے ہیں کہ فوج کی حمایت کے لئے سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالا گیا ہے۔ کیچڑنہیں اچھالا گیا ہے۔ آئینہ دکھانے کی حقیر سی کوشش کی ہے۔ سماج سدھار کے خواہش مندوں کو کیچڑ میں لتھڑے سیاستدانوں کو مسترد کرنا ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں مشال قتل نہ ہوں۔ کوئی محافظ قاتل نہ بنے۔ خطیب پیدا نہ ہوں تو پھر راہنما بدلنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتوں کی صفیں درست کرنا ہوں گی۔ بصورت دیگر خطیب پیدا ہوتے رہیں گے۔ استاد قتل ہوتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).