جو فقط مذہبی اختلاف کے باعث کسی سے نفرت کرے، دہشت گرد ہے


حال ہی میں پنجاب کے شہر بہاولپور میں ایک طالب علم خطیب حسین نے مبینہ طور پر اپنے پروفیسر خالد حمید کو خنجر کے وار کرکے بے رحمی سے قتل کر دیا پرفیسر کا جرم یہ تھا کہ وہ رواں ہفتے اپنے کالج میں استقبالیہ پارٹی منعقد کرنا چاہتا تھا، طالب علم نے اپنے استاد کی سوچ کو ’مذہب مخالف سوچ‘ قرار دے کر اسے سزا دینے کا فیصلہ کیا اور خود ہی اس پر عمل بھی کر لیا۔ طالب علم نے اپنی کلاس میں بھی اس کی مخالفت کی تھی لیکن استاد کی جانب سے پارٹی کی تیاریوں کا سلسلہ جاری تھا اس لیے طالب علم نے استاد کی زندگی چھین کر اسے سزا دی۔ ایک طالب علم کی طرف سے اپنے ہی استاد کو قتل کر دینا تعلیمی اداروں میں بھی بڑھتا ہوا عدم برداشت کا رجحان ہے، اور انتہا پسندی کی نشاندہی کر رہا ہے۔

شعبہ انگریزی میں زیر تعلیم انیس سالہ طالب علم کی انتہا پسند سوچ کا عالم دیکھئے کہ جب پولیس نے پروفیسر خالد حمید کے قتل کے معاملے پر پوچھ گچھ کے دوران اسے بتایا کہ استاد اب اس دنیا میں نہیں رہے تو اس نے ڈھٹائی سے جواب دیا کہ ”اچھا ہوا“ ایسی سوچ پاکستان میں پلنے والے کس طبقے کی عکاسی کرتی ہے؟ پرفیسر خالد حمید کے بیٹے ولید خان نے اہم سوال اٹھایا کہ کیا تعلیمی اداروں میں نیشنل ایکشن پلان پرمکمل عمل درآمد بھی بیرونی دباؤ پر کیا جائے گا؟

یا ایسے کیسز نیشنل ایکشن پلان کے زمرے میں نہ آتے ہوں کیوں کہ انفرادی سوچ کو پاگل اور دیوانہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن دہشت گرد نہیں۔ چاہے وہ کرائسٹ چرچ میں پچاس بے گناہ لوگوں کو پرندوں کے شکار کی طرح اڑا دے، یا کوئی طالب علم اپنے ہی استاد کو خنجروں کے وار کر کے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دے کیونکہ دہشت گردوں کی تو تنظیم ہونا ضروری ہے اور کسی ملک کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تعلقات تو دہشت گردو‍ں کی شان میں اضافہ کرتے ہیں۔ تب ہی ان کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے۔

انتہا پسندی کی بدترین مثال اس وقت بھی قائم ہوئی تھی جب عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تئیس سالہ طالبِ علم مشال خان کو توہین مذہب کے الزام میں درجنوں ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی کے ملازمین نے بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ معاشرے نے مشال خان پر بھی توہین مذہب کا الزام لگا کر اپنی نظروں میں مذہب کی لاج بچائی تھی۔ انتہا پسندانہ رویے کے باعث ہی مذہبی رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کسی پر الزام لگا کر خود ہی اس کے لیے سزا کا تعین کر لینا ہمارے ہاں بہت عام سی بات ہے چاہے وہ آسیہ بی بی کا معاملہ ہو یا سلمان تاثیر ہم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر عمل کر دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کا تعلق کسی مدرسے سے نہیں تھا لیکن اس کی سوچ انتہا پسند تھی۔ ہماری بے حسی کی انتہا تو تب ہوتی ہے جب سوشل میڈیا پر اس قتل کو سراہا جاتا ہے اور انہتاپسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا جاتاہے۔

انتہاپسندی اور عدم برداشت ہمارے معاشرے میں اس حد تک شامل ہے کہ اس کی جھلک ہم نچلے طبقے سے لے کر سیاسی جماعتوں میں بھی روز کسی نہ کسی واقعے کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ریاست کی ساکھ کو داؤ پر لگانا ہو، یا کسی پر بھی اٹھ کر الزم لگا دینا عام سی بات ہے۔ وزراء کی عدم برداشت کے قصے بھی روز مرہ کی سیاست کا معمول ہے۔ صوبائی وزیر کا دوسرے مذاہب کے جذبات مجروح کر دینا ہو یا سیاسی رہنما کا ٹاک شو میں بیٹھ کر مخالف رہنما کو تھپڑ رسید کر دینا۔

وزراء کا ایک دوسرے پر بیان بازی کرتے ہوئے جملے کس دینا عدم برداشت کی عکاسی ہے ایسے بہت سے عدم برداشت کے رویوں سے سیاست بھی چمکتی رہتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی ریلیوں میں بھی کارکنان کو جمع کر کے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی جاتی ہے آپس میں گتھم گتھا ہو جانا اور تصادم پیدا ہوجانا بھی عدم برداشت کے باعث ہی دیکھنے میں آتا ہے

انتہا پسندی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں آسٹریلوی دہشت گرد مسلمانوں کو شہید کرنے کے مناظر پندرہ منٹ تک سوشل میڈیا پر لائیو کوریج کرکے دکھاتا رہا۔ اپنی انتہاپسند سوچ پر عمل کرنے کے بعد بھی اس کے چہرے پر پشیمانی نہ تھی آسٹریلین سینیٹر کا مسلمان مخالف ٹویٹ بھی اسی رویے کہ ترجمانی کرتا ہے۔ ایسے ہی انتہا پسند رویے کے بدلے میں امریکہ اور نیٹو ممالک نے کروڑوں لوگوں کو بموں کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔

امریکہ نے اپنی بم باری سے خود جہادی پیدا کیے۔ آسڑیلیا، امریکہ یورپ سمیت کئی ممالک میں مسلمانوں پر پابندیاں لگائیں۔ گوروں کی اسمبلیوں میں موجود لوگ ہی نفرت کا پرچار کرتے رہے اسلامک فوبیا پھیلاتے رہے جس کے نتائج کا آغاز ہو چکا ہے۔ دہشتگرد اور انتہا پسند سوچ ہونے کا تعلق ہرگز کسی مذہب یا کسی فرقے سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ انسان دہشت گرد ہے جو کسی بھی انسان سے فقط مذہبی اختلاف کے باعث نفرت کرتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).