امن عالم کی شاعرہ : نزہت صدیقی


زندگی کا سفر جو لا متناہی ہے اس میں شاعر پرانے زمانوں سے متھ کو بطور ٹیکنیک استعمال کر تے چلے آئے ہیں۔ متھ در اصل لا شعور کی باطنی دنیا اور سماجی حقیقتوں یعنی تاریخ کی خارجی دنیا کے درمیان ایک پل ہے۔ مذہب نے اس طریقِ کار کو نہا یت چابک دستی سے استعمال کیا ہے جس وجہ سے کبھی کبھی لوگ صحائف کو لٹریچر کی نگاہ سے بھی دیکھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑی شاعری اور بڑا لٹریچر اپنے بیان میں ترسیل کی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے جب لا شعوری ابہام کی تہیں کھولتا ہے تو صحائف کے قریب تر پہنچ جاتا ہے۔ اس موقع پر مجھے نزہت کی ایک چھوٹی سی نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان ہے۔ میں کیا لکھوں

شعورِ ذات کو انا کی قید سے چھڑا سکوں تو کچھ لکھوں
میں جسم کی کمین گاہ سے نکل کے روح کی کھلی فضا میں جا سکوں تو کچھ لکھوں
نظر کی حد سے ماورا حقیقتوں کو پاسکوں تو کچھ لکھوں ’
حصارِ وقت سے پرے جو تجربات ہیں وہ کر سکوں
انہیں گرفتِ حرف و صوت میں جو لا سکوں تو کچھ لکھوں
میں کیا لکھوں۔

موجودہ دور میں انسانی نظریات کے اندر جو اہم موڑ آیا ہے وہ زندگی کا سیکو لر نظریہ ہے۔ اس سے پہلے کے ادوار میں شاعری کی اتھارٹی کی کلید یونانی خداوں کے ہاتھ میں تھی۔ سیکولر زمانے میں شاعری کی اتھارٹی آسمانوں سے اتر کر زمین پر چلی آئی ہے اور نیچرل رائٹس کا تصور وہ عقلی اور فلسفیانہ بنیاد ہے جس پر موجودہ زمانے کا سارا نظام استوار ہے۔

اس بنیادی بات سے شاعری اور لٹریچر کے اندر گفتگو کی بہت سی جہتیں پیدا ہو تیں ہیں مگر بات کو مختصر رکھنے کے لئے میں صرف اتنا کہوں گا کہ نیچرل رائیٹس یا بنیادی حقوق کے اصول کی بنیاد پر معاشرے بادشاہتوں سے جمہوریت میں تبدیل ہو ئے اور انسانی حقوق فلسفیانہ سوچ کا اٹوٹ انگ بن گئے جس کو حقیقت کا روپ ابھی مکمل طور پر تو نہیں دیا جاسکا مگر انسان اس کے لئے کوشاں ضرور ہے۔

ان فکری دہاروں کا اثر اردو ادب پر کیا ہوا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ آپ ترقی پسند تحریک سے تو بخوبی واقف ہیں جو معاشرے میں انسانی حقوق کے تصور کو بنیادی بات سمجھتی ہے۔

سنجیدگی سے ادب کا مطالعہ کر نے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اردو شاعری میں ذاتی امن و سکون کی بات ہو تی رہی ہے۔ ترقی پسند مصنفین نے امن کی تفہیم کا دائرہ وسیع کیا اور معاشرتی امن کو موضوعِ سخن بنایا خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایٹم بم کی تباہی کے پس منظر میں۔ نزہت کے اندازِ فکر میں صرف جنگ کا نہ ہونا امن کے فلسفے کی کافی تعبیر نہیں۔ نزہت کی شاعری میں امن فرد اور معاشرے کے دائروں سے نکل کر پورے کرہ ارض پر ہستی کی تمام صورتوں کی بنیادی ضرورت بن کر نظر آتا ہے۔

یہ درست ہے کہ کئی شعرا نے اس مضمون کو برتا ہے مگر صرف جستہ جستہ۔ جبکہ نزہت کی تمام شاعری امن کے جامع نقطہِ نظر کو پیش کر تی ہے۔ جس میں وہ نوعِ انسانی کی یکتائی کو ملکوں کی بٹی ہو ئی سرحدوں سے بلند ہو کر کرہ ِ ارض پر نسلِ انسانی کی یکتائی اور انسانوں کا زمین پر بسنے والی ہر مخلوق سے تعلق کا شعور پیدا کر تی ہیں۔

اسی سے متعلقہ یہ بات بھی اہم ہے کہ کچھ عرصے سے ماحولیات کے حوالے سے بھی تخلیقات نظر آرہی ہیں لیکن نزہت کی ماحولیات اور امنِ عالم کی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1981 سے ہو چکا تھا اس وقت یہ موضوعات اردو ادب کا حصہ نہیں تھے۔ ان حوالوں سے ان کو منطقی طور پر امن کی شاعرہ کہا جاسکتا ہے۔ امرتا پریتم بہت زمانہ پہلے یہ خطاب انہیں دے بھی چکی ہیں۔

میں نے اوپر ترقی پسند تحریک کی بات کی تھی، اُسی ضمن میں میں بتاتا چلوں کہ اس تحریک سے جو ادب پیدا ہو ا اس کا ایک بہت بڑا حصہ مزاحمتی اور احتجاجی ادب ہے۔ مگر یہ احتجاج نیشن سٹیٹ کے بٹے ہو ئے دائروں کے اندر ہی انصاف کے لئے سر گرمِ عمل ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ احتجاج کی ضرورت بھی اسی نظام کی پیدا وار ہے۔

اردو لٹریچر میں نزہت پہلی شاعرہ ہیں جنہوں نے نیشن سٹیٹ کے بٹے ہو ئے سسٹم کی استحصالی حقیقت کو سمجھا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسائل پیدا کر نے والے نظام سے بہتری کی توقع بے معنی سی بات ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے مسائل کو ایک نئے زاویہ اور نئے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے۔ اس جگہ پر میں نزہت کے یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں سوشیالوجی کے استاد جناب پروفیسر مدن ہانڈہ صاحب کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے امن کا ایک جامع نقطہِ نظر پیش کیا اور اپنے شاگردوں کو اس سے رو شناس کروایا۔ یہاں مجھے نہج ا بلاغہ سے حضرت امام علی رضی اللہ کا ایک قول یاد آرہا ہے۔ فرماتے ہیں : ”خدا اس شخص پر رحمت فرمائے جس نے حکیمانہ بات کو سنا اور اسے مانا۔ جب راہِ راست کی طرف بلایا گیا تو اس سے قریب تر ہو گیا، ہادیِ راہ کا دامن تھاما اور نجات پاگیا“۔ پروفیسر ہانڈا صاحب نے خاص طور پر نزہت کو نظریہء امنِ عالم کو اپنی شاعری میں لانے کی بھی ترغیب دی۔

یہ نیا نقْطہِ نظر یعنی ”انٹگرل پیس پیرا ڈائیم“ دورِ حاضر کے بحرانات کو سمجھنے کا ایک نیا زاویہ ہے۔ امنِ عالم کا یہ نقطہ نظر کسی واحد متکلم دیوانے کا خواب نہیں بلکہ یہ مادی سماج کا ایک روحانی نظریہ ہے۔ یہاں روحانی سے مراد کوئی مافوق الفطرت بات، الہام یا کوئی رویا نہیں بلکہ اس کے اندر زمان و مکاں کا ایک ”ڈائی نیمک“ یا فعال حرکی نظریہ ہے جس سے ہو سکتا ہے تاریخ کے نئے دھارے پھو ٹیں اور راکھ ہو تی زندگی سے ققنس پرندہ جنم لے لے۔

سماجی تبدیلی کے سلسلے میں ایک دو بنیادی اصولوں کی وضاحت ضروری معلوم ہو تی ہے۔ سیاسی یا معاشرتی طور پر نئے سماج کی تعمیر کے سارے عنا صر پرانا سماج بہم پہنچا تا ہے سوائے ایک چیز کے اور وہ ہے نیا شعور۔ سوشیالوجی کے سبھی طالبعلم جانتے ہیں کہ سماجی حرکیات کی رفتار نہا یت سست ہوتی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات جسے سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سماج کے اندر آخر وہ کیا چیز ہے جس میں سست روی سے تبدیلی آتی ہے؟

ہیگل اس نتیجے پر پہنچا کہ تاریخ کے ہر دور میں سوسائیٹی کے اندر شعور اور مادے کی ایک مربوط شکل ہوتی ہے اسے جرمن زبان میں ”گا ئسٹ“ یا روحِ عصر بھی کہتے ہیں اور یہ وہ چیز ہے جسے تبدیل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب کارل مارکس نے سماجی تاریخ کا مطالعہ کیا تو اس نتیجہ پر کہ سیا سی، سماجی رشتے، شعور اور مادے کی تمام جہتیں اور پرتیں موڈ آف پروڈکشن کا اظہار ہیں جو تاریخ کے ذریعے نئے سماج تک پہنچتے ہیں۔ سو، موڈ آف پرودکشن کی تبدیلی سماجی تبدیلی کی بنیاد ہوتی ہے۔

یہ وضاحتی بات شاید تھو ڑی لمبی ہو گئی ہو مگر اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ انسان جب مستقبل کے خواب دیکھتا ہے تو اس سعی میں بعض اوقات اپنے ماضی کو قتل کر نے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اور یہیں سے ایک خطرناک ”نہل ازم“ یعنی مکمل عدمیِت کی بنیاد پڑتی ہے اور یہ رویہ انسانیت کے لئے اتنا ہی خطر ناک ہے جتنی بنیاد پرستی۔

اس تناظر میں مجھے نزہت کے خیالات میں تاریخ کا ایک جاندار رویہ نظر آتا ہے۔ ان کے نزدیک امنِ عالم کے جامع سماجی نقطہَ نظر میں اپنے ماضی کی ہر قیمتی روائیت کو مستقبل کے نئے سانچے میں ڈھالنا ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس نقطہ نظر کی روشنی میں دنیا کے تمام مقدس صحیفوں اورہستیوں سے گریزاں ہو نے کی کو ئی ضرورت نہیں بلکہ ان کو مستقبل میں نسلِ انسانی کے مشترکہ ورثہ کی قابلِ احترام جگہ دینی ہو گی۔

ماحولیات اور انسان کے استحصال سے بچنے کے لئے مادہ کے روحانی نظریات کا گہرا پرتو نہ صرف نزہت کی شاعری میں بلکہ شخصیت میں بھی نظر آتا ہے وہ امنِ عالم کی نقیب ہی نہیں اس میں بسنے والے پر امن انسان کی مثال بھی ہیں۔

میں نے اس سے پہلے شاعری میں اساطیر کی بات کی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے کلچر میں نیکی اور بدی کے امتیاز کے لئے پل صراط کا حوالہ بہت مشہو ر ہے۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ حیات بعد الموت میں پل صراط کی شکل یا معنوی تعبیر کیا ہو گی مگر ہمیشہ مجھے گمان گزرتا ہے کہ انسان کے لئے زندگی کر نا کسی پل صراط پر سے گزرنے سے کم نہیں۔ کاش کہ یہ زندگی کی بجھارت زندگی کے بعد کھلنے کی بجا ئے آج ہی کھل جائے۔ بقول نزہت :

ہم حیرت کے سناٹے میں بے نطق و بیان
کچھ تم ہی کہو تم کون سے پردوں میں ہو نہاں

تم عقدہ کشائے رازِ جہاں
اب تم بھی تو کچھ بولو جاناں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2